برسوں مجھے گلشن کی فضا یاد رکھے گی

حضرت قاری عتیق اللہ صاحب کی جدائی

مدرسہ رحمانیہ، جامعۃ العلوم الاسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کی شاخوں میں تیسری بڑی شاخ ہے، جو کورنگی کراچی کے علاقے بلال کالونی میں واقع ہے۔ کسی بھی تعلیمی ادارے کو اپنا نظامِ تعلیم، اپنی سوچ اور فکر، اپنا پیغام اور اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کے لیے سب سے پہلے مخلص افراد کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ ادارہ اپنے مقصد اور ہدف تک پہنچ کر معاشرے پر اپنا اثر اور اپنا رنگ جمائے۔ مدرسہ رحمانیہ انہی خوش قسمت تعلیمی اداروں میں سے ایک ہے جس کو ایک مخلص، محنتی، عالم با عمل، نگران اعلیٰ، استاد محترم حضرت قاری عتیق اللہ صاحب( نوراللہ مرقدہ) کی صورت میں اپنے تعلیمی سفر کے آغاز ہی میں میسر ہوا۔حضرت قاری عتیق اللہ صاحب، مدرسہ رحمانیہ کے ابتدائی ایام سے لے کر اپنی رحلت تک نگران رہے، 1989 میں جامعۃ بنوری ٹاؤن سے فراغت کے بعد ان کو ادارے کی ذمہ داری سونپی گئی، اور یوں 28 سال تک انتہائی خوبی اور احسن انداز میں اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے بالآخر 22 مارچ 2018 کی صبح طویل علالت کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔۔ رحمہ اللہ تعالی۔

پسماندگان میں ایک بیوہ، 6 بیٹے، 8 بیٹیاں اور ملک کے طول و عرض میں پھیلے ہزاروں کی تعداد میں شاگرد سوگوار چھوڑے، حضرت قاری عتیق اللہ صاحب بلا شبہ ایک جہد مسلسل اور ایک انجمن کا نام تھا، وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھا، وہ مدرسے کی زینت، امن و امان کا حقیقی پیغام، اور علاقے کی ترقی کا ایک روشن نام تھا، درس و تدریس کے علاوہ عشاء کی نماز کے بعد بہت ہی اہتمام کے ساتھ درس قرآن کا اہتمام کیا کرتے تھے، ان کے درس قرآن میں طلبہ کے علاوہ محلے کی کثیر تعداد شریک ہوتی تھی۔۔ اپنے ادارے کے علاوہ علاقے کی ترقی میں ان کا کردار تاریخ کا ایک حصہ ہے، بلال کالونی کورنگی میں اہل علاقے کا سب سے بڑا مسئلہ صاف پانی کا تھا، جس کی خاطر قاری صاحب کی جدو جہد کسی بھی با شعور انسان سے کسی صورت بھی مخفی نہیں، بالآخر اپنی اس عظیم کوشش میں اللہ تعالی نے ان کو کامیابی عطا فرمائی ۔  اور اہل علاقہ کے لیے پانی کی فراہمی یقینی ہو گئی۔ پورے علاقے میں ان کے نام کا ڈنکا بجتا تھا، پورے محلے پر ان کی باتوں کا اثر تھا۔ اہل محلہ کے ما بین ہونے والی ناچاقیوں کے لیے جرگے کا اہتمام کر کے آناً فاناً مسائل کے حل کے لیے آسان حل نکالتے، اور یوں بلا وجہ لوگوں کو تھانے اور کچہریوں کی خاک چھاننے کی نوبت ہی نہیں آتی، محلے میں کسی امیدوار کی حمایت کرتے، تو ان کی پہلی شرط یہ ہوتی کہ آپ نے محلے کے غریب عوام کے لیے کام کرنا ہے، کئی بار ایسا ہوا کہ علاقے کے منتخب کونسلر کو بلا کر ان سے علاقے میں ہونے والے کاموں سے متعلق پوچ گچھ کی۔ ان کی ذمہ داری ان کو یاد دلائی، اور ان کے سامنے ہی شدید احتجاج ریکارڈ کرایا، الغرض ان کی ذات خدمت خلق کے عظیم جذبے سے سرشار تھی، ہمیں یہ سعادت حاصل ہے کہ ہم نے اپنے استاد محترم سے درجہ ثانیہ میں قدوری اول، اور درجہ سادسہ میں تفسیر پڑھی۔ان کا درس، ان کی باتیں، اور ان کی حسین صورت آج بھی نگاہوں کے سامنے ہے، اللہم اغفرہ۔

ان کی وفات کی خبر آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی۔ ان کے عقیدت مند دور دور سے ان کا آخری دیدار کرنے کو دیوانہ وار آئے۔ ممتاز علماء کرام نے ان کو ان کی دینی خدمات کے اعتراف میں زبردست خراج تحسین پیش کیا، سینیٹر مولانا عبدالغفور حیدری، اور مفتی کفایت اللہ کے علاوہ سیاسی اور دینی قائدین ان کی تعزیت کے لیے ان کے گھر تشریف لائے، معروف عالم دین مولانا ابن الحسن عباسی نے ان الفاظ میں ان کی تعزیت کی۔۔۔۔ مولانا قاری عتیق اللہ صاحب کا انتقال ہوگیا ، وہ جامعہ بنوری ٹاؤن کے فاضل اور جامعہ کی شاخ مدرسہ رحمانیہ بلال کالونی کراچی کے نگران تھے ،مولانا ایک صاحب درد عالم دین تھے ، مدرسے میں تدریسی اور انتظامی ذمہ داریوں کے ساتھ وہ اپنے آبائی علاقہ تورغر (کالا ڈھاکہ)میں بھی دینی تعلیم کی نشر واشاعت کے لیے سرگرم تھے ، انہوں نے وہاں مکاتب کھولے تھے اور اپنے گاؤں میں ایک مدرسہ بھی قائم کیا تھا جس میں حفظ و ناظرہ قرآن کی تعلیم کے ساتھ ساتھ درس نظامی کے چند درجات بھی ہیں ، میرے ساتھ اسی حوالہ سے ان کا رابطہ رہتا، وہ بہت محدود وسائل کے ساتھ بڑا مؤثر کام کررہے تھے اور اس کی تفصیلات سے وقتا فوقتا آگاہ کرتے رہتے ۔ مجھے اچانک ان کی بیماری اور اب اچانک ان کی وفات کا علم ہوا۔ یہ فانی زندگی کی ایک عبرت ناک روش روزگانہ ہے ، قافلہ میں چلتے چلتے ہم سفر بچھڑ جاتے ہیں اور ایک دن خود آدمی قافلہ کو تیاگ دیتا ہے ، یوں ماہ وسال کاسفر تمام ہوجاتا ہے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے ، پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔اور ان کے دینی کاموں کو ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائیں ۔

کلیوں کو میں خون جگر دے کے چلا ہوں

برسوں مجھے گلشن کی فضا یاد رکھے گی

Print Friendly, PDF & Email