سقراط، زہرکاپیالہ اور بچپن کی تحقیق

انسانی ذہن پر مرقوم بچپن کی یادیں مٹانے سے نہیں مٹتی، بھلانے سے نہیں بھولتی، انسانی ذہن ایک ایسی تختی ہے کہ اس پر لکھی ہوئی باتیں اور یادیں پتھر پر لکیر کی مانند ہوتی ہیں، دنیا چاند پر پہنچ جائے، یا گلوبل ولیج کی شکل اختیار کریں، یا ترقی کا آسمان چھوئیں، پر، جو بھی ہو، لیکن انسانی دماغ سے منسلک تختئی اذہان کی یادیں موقع محل پا کر انسانی ما فی الضمیر کا حصہ ضرور بنتی ہیں، بچپن میں جب زلزلہ آتا تو اس وقت بچپنے کی تحقیق کا آخری نچوڑ یہی تھا، کہ زمین کی تہہ میں اللہ میاں کا ایک بہت بڑا بیل رہتا ہے، یہ اتنی بڑی زمین وہی بیل اپنے سینگوں میں اٹھائے رکھتا ہے، جب ایک سینگ پر تھکتا ہے تو دوسرے سینگ پر زمین اٹھاتا ہے، اس دوران زمین ہِل جاتی ہے اور اسی ہلنے کے عمل کو ہم زلزلہ کہتے ہیں، بچپن کی اس پیاری اور دلنشین تحقیق کا حقیقت سے کتنا تعلق ہے اس بحث کو آئندہ کے لیے چھوڑتے ہیں اور آگے بڑھ کر بچپن کی دوسری تحقیق پر نظر ڈالتے ہیں، چنانچہ آسمان پر کالی گھٹاؤں کی دوش میں کوندنے والی آسمانی بجلی کی کڑک کے ساتھ جب بادل گُرگُر گُرکی ڈراونی آواز کے ساتھ گرجتا، اور گرج کی آواز تھم جاتی تو ہماری تحقیق یہ تھی کہ آسمان پر ایک بڑھیا رہتی ہے، کبھی کبھار وہ بڑھیا اپنا بڑا سا مٹکا جب گھسیٹ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتی ہے تو اسی مٹکے کی رگڑ سے گرج کی یہ ڈراونی آواز پیدا ہوتی ہے، آج حقیقت کا ادراک، سائنس کی معلومات، اور اصل سبب تک رسائی کے باوجود ماضی کی یہ پیاری سی تحقیق آج بھی ذہن کے کسی ایک گوشے میں جگہ پکڑ کر بیٹھی ہوئی ہے، تیسری تحقیق یا آپ اس کو تیسرا گمان سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں یہ تھی کہ دیہات کے اونچے پہاڑوں میں مسکن بنا کر بسنے والی مائیں چاندنی راتوں میں گھروں سے باہر آکر جب چاند پر پڑی چھائیاں دیکھتی تو اپنے بچوں کا دل بہلانے کے واسطے ان کو آسمان میں موجود ترازو نما ستارے دکھانے کے ساتھ یہ بھی دکھاتی کہ بیٹا! وہ دیکھو چاند پر ایک بڑھیا چرخہ کات رہی ہے، اور کبھی وہ اسی بات کو دوسرے انداز سے بھی کہہ کر سناتی کہ دیکھو بیٹا، چاند پر یہ جو لڑکی لالٹین سمیت کھڑی ہے نا۔ یہ فلاں پری کی بیٹی ہے، زمین میں جب اس لڑکی کی قدردانی نہیں ہوئی تو اس نے اپنا مسکن چاند کو بنا لیا، اور آج تک چاند پر موجود ہے، بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ ہماری تحقیقات کا دائرہ بھی کچھ وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا تھا، اور بعض تحقیقات تو وہ تھیں جو سچ مچ حقیقت کا روپ دھار چکی تھیں، جیسے سقراط کو زہر کا موجد قرار دینا وغیرہ، چنانچہ ہم کہا کرتے تھے کہ دنیا میں سب سے پہلے سقراط نے ہی زہر ایجاد کیا اور سب سے پہلے اسی نے خود ہی زہر کا ذائقہ بھی چکھا،اور اسی سبب ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی، یہ تحقیق گو کہ حقیقت نہیں ہے، لیکن حقیقت سے زیادہ دور بھی نہیں ، سقراط میلاد مسیح سے تقریبا 470 سال قبل یونان کے شہر ایتھنز میں پیدا ہوئے، جو یونان کا دارالحکومت بھی ہے، سقراط،گو کہ آخرت پر یقین نہیں رکھتا تھا لیکن نسل نو کی توجہ اکثر انہی اخلاق کی طرف مبذول کرنے کی سعی میں مصروف تھے، جو اخلاق اور آداب صرف اسلام ہی کا خاصہ تھے، اسی طرح سقراط کو یونان کی قومی دیوتاؤں سے بھی چھڑ تھی، جس کی وجہ سے یونان کی حکومت سقراط سے نالاں تھی، اسی پاداش میں یونانی ریاست کی عدالت میں جیوری کی سربراہی میں ان پر الزام عائد کیا گیا کہ یہ ہماری دیوتاؤں کے خلاف ہے، اور نسل نو کی ذہن سازی ایک الگ نظریے کے تحت کر رہا ہے، چنانچہ جیوری میں موجود 501 بندوں میں سے 281 لوگوں نے آپ کے لیے سزائے موت کی تجویز دے دی، جبکہ 220 افراد نے اس سزا کی مخالفت کی، اور یوں اکثریت کی رائے کے مطابق سقراط کو ریاست کی ایک جیل میں قید رکھنے کے بعد بالآخر اس وقت کی سزائے موت کے طریقے کے مطابق سقراط کو زہر کا پیالہ پلا کر سزائے موت دے دی گئی، اس وجہ سے کہتے ہیں کہ سقراط نے زہر کا پیالہ تو پی لیا، لیکن فرار کا راستہ ہونے کے باوجود ملکی قوانین کی خلاف ورزی نہیں کی۔

Print Friendly, PDF & Email