درد مندوں کی بے مثال ٹیم !

خدمت خلق ایک مقدس جذبہ ہے جس کی تحریک کے لئے کسی رہبر کی ضرورت نہیں پڑتی۔یہ تو دل کا سودا ہے اور رضاکارانہ طور پر کیا جاتا ہے ۔ ایک رضا کار دل سے عہد کرتا ہے کہ وہ دکھی انسانیت کی خدمت کے لئے ہر ممکن کوشش کریگا۔ وہ مخلوق کی خدمت کرتے ہوئے تھکتا نہیں ہے۔ بیزار نہیں ہوتا ۔ دکھاوے اور نمائش سے کوسوں دور بھاگتا ہے۔ ایسے لوگ دل میں خوف خدا لئے دکھی انسانیت کی خدمت کرتے ہیں اور ایسے لوگوں کی وجہ سے ہی دنیا خوبصورت ہے۔ محتاجوں کے کام آنا‘ بھوکے کو کھانا کھلانا‘ اپاہجوں اور یتیموں کی سرپرستی کرنا‘ یہ وہ نیکیاں ہیں جو امن و آشتی اور انس و الفت کے پھول بکھیرتی ہیں۔ اور دلوں کو تسکین دیتی ہیں۔

 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دور خلافت ہے، اپنے وقت میں کرہ ارض کا سب سے بڑا حکمران ہے ‘ لیکن اس کے باوجود ان کی عاجزی و انکساری اور ان کے اندر خدمت خلق کا عملی پہلو دیکھ کر بہت سوں کو یہ گمان گزرتا تھا کہ یہ شخص کوئی بہت ہی معمولی قسم کا مزدور ہے۔ حالانکہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عظمت و شان اور رعب و دبدبہ کا ایک طرف تو یہ حال تھا کہ محض آپ کے نام سے ہی قیصر و کسریٰ کی ایسی عظیم الشان سلطنت کے ایوان حکومت و اقتدار میں لرزہ پیدا ہوجاتا تھا اور دوسری طرف خدمت خلق کا یہ عالم ہے کہ کندھے پر مشکیزہ رکھ کر بیوہ عورتوں کیلئے آپ پانی بھرتے ہیں۔ مجاہدین اسلام کے اہل و عیال کا بازار سے سودا سلف خرید کر لادیتے ہیں اور پھر اسی حالت میں تھک کر مسجد نبویﷺ کے کسی گوشہ میں فرشِ خاک پر لیٹ کر آرام فرماتے ہیں۔

ایک دن حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ صدقہ کے اونٹوں کے بدن پر تیل مل رہے تھے کہ ایک شخص نے کہا : اے امیر المومنین ! یہ کام کسی غلام سے لے لیا ہوتا، آپ کیوں اتنی محنت ومشقت کرتے ہیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھ سے بڑھ کر اور کون غلام ہوسکتا ہے، جو شخص مسلمانوں کا والی ہے وہ در حقیقت ان کا غلام بھی ہے۔(سیرالصحابہ/ کنزالعما ل )

 چترالی خوش قسمت قوم ہے، کہ ان میں انسانیت کی خدمت کا طوق گلے میں ڈال کر شہر شہر، قریہ قریہ، گلی گلی اور ہسپتالوں سے لے کر کٹیا تک پہنچ کر غریبوں، ناداروں، بے کسوں اور بیماروں کو ڈوھونڈ نکال کر ان کی خدمت کے لئے میدان عمل میں کام کرنے والا ” عبید فلک ” جیسا ہستی موجود ہے ۔

2018 تک ان سے ہماری دوستی سوشل میڈیا تک محدود تھی، البتہ ملنے اور ان سے ملاقات کی تڑپ دل میں ایک عرصے سے تھی’ گذشتہ سال دارالعلوم سرحد پشاور میں ایک مشاعرہ کی محفل میں ان سے ملاقات کی تمنا پوری ہوئی۔ لہجہ اتنا میٹھا، شیریں اور نرم کہ ملنے والا پہلی ملاقات میں ہی ان کے لہجے کے سحر میں جکڑ جائے۔

عزت، احترام اور نوازشات کی اتنی بارش’ کہ سامنے والا اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھ کر اکڑنے پر آ جائیں۔

منہ سے نکلنے والے احترام کے نایاب اور حوصلہ افزا کلمات کا ایک وافر مجموعہ ہمہ وقت ان کی دسترس میں ہے۔

عائشہ کے گردوں کی فریاد کا مسئلہ ہو یا چترال سے باہر رہنے والی کسی بھی چترال کی بیٹی کی پکار، ان پر سب سے پہلے لبیک کہہ کر میدان عمل میں اترنے والا آپ کو ” عبید فلک ” ہی نظر آئے گا۔گزشتہ دنوں چترال کے موردیر سے تعلق رکھنے والی بیٹی عائشہ ( جو کہ تا حال گردوں کی بیماری میں مبتلا ہے) کی اپنے چترالی بھائیوں سے تعاون کی اپیل کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، جس میں وہ اپنی بے بسی اور علاج کی مد میں فنڈ کی عدم دستیابی کی فریاد کر رہی تھی۔ ان کی اس آواز پر "فلک صاحب ” نے بے ساختہ لبیک کہا، اور ایک انسانی قیمتی جان کو بچانے کے لئے سوشل میڈیا میں عوامی رابطہ مہم کا آغاز کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کے ساتھ درد مندوں کی ایک بے مثال ٹیم "قاضی نذیر بیگ چئیرمین کھوار اہل قلم اورسیز، برنس چترال سے اقرار الدین خسرو جنرل سیکریٹری کھوار اہل قلم چترال، زاکر محمد زخمی صاحب چئیرمین قلم قبیلہ چترال ، صفی اللہ آصفی آف شمع فروزان آیون ، مولانا عاطف بیگال صاحب آف پشاور، کی صورت میں میسر آئی۔

آج اس ٹیم کی تگ و دو اور بے مثال کوششوں سے پوری چترالی قوم جاگ چکی ہے۔ ضمیر نے ان کو جھنجھوڑنا شروع کر دیا ہے۔ کافی حد تک ان کے اندر کا احساس زندہ ہو چکا ہے۔ لیکن اب تک بہت کام باقی ہے۔

یہ صرف عائشہ بیٹی کا مسئلہ نہیں، بلکہ در اصل یہ احساس ذمہ داری کی بیداری کا مسئلہ ہے۔

یاد رکھیں چترالی قوم ! آپ بہت خوش قسمت ہیں، آپ کے بیچ "عبید فلک ” موجود ہے ‘ آپ میں قاضی نذیر بیگ جیسا انسان موجود ہے۔ فخر چترال کی ڈگریاں لینے والے آپ کو بہت ملیں گے۔ لیکن اپنی قوم کے لئے بلا تفریق خدمت کا جذبہ لئے میدان میں کام کرنے والا ‘ عبید فلک اور قاضی نذیر بیگ آپ کو ہر جگہ نہیں ملیں گے۔  اس نفسا نفسی کے عالم انسان اپنے لئے اور اپنے بچوں کے لئے نہیں جی سکتا، تو پھر سلام ہے ان بے لوث خدمت گاروں کو جنہوں نے اپنا سب کچھ تن من دھن دوسروں کی خوشی کے لئے قربان کیا۔ سوشل میڈیا کو نیک کاموں کے لئے استعمال کرنا کوئی عبید فلک اور قاضی نذیر بیگ سے سیکھئیےآمین حزیں نے کیا ہی خوب کہا ہے۔

روشنی پہنچانا میرا کام ہے

آپ کی خدمت میرا انعام ہے

 

Print Friendly, PDF & Email