عروسِ کائنات کی مانگ میں موتی بھر گئے !

سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم در حقیقت اس پیغامِ ربانی کے پرتو سے عبارت ہے، جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قول و فعل اور ارشاد و سلوک کے ذریعہ انسانی جمعیت کے سامنے پیش کیا تھا اور جس کے ذریعے زندگی کے پیمانے بدل دیے تھے- عالم ہستی کے لیے رحمت للعالمین بن کر تشریف لانے والے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت تھی، کہ انسان نے اس وسیع و عریض کائنات کی گود میں انسان بن کر جینے کا گُر سیکھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری چونکہ کسی خاص قوم، قبیلہ یا کسی خاص علاقے کی طرف نہیں ہوئی تھی، اس لئے کائنات کے ذرے ذرے کو ان کے علم و حکمت سے مستفید ہونے کا ایک نادر موقعہ مل گیا، انسان کی کامیابی کا اصل راز اسی میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طور طریقوں اور آپ کی سنتوں کو عملی طور پر اپنی زندگی میں جگہ دے، اور آپ کی سیرت مبارک کو منانے کی بجائے اپنانے پر توجہ دے، ضروری یہ ہے کہ انسان، ان کا اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، چلنا پھرنا، انداز گفتگو، سماج اور معاشرے میں مل جل کر رہنے کا طریقہ خود بھی اپنائے اور معاشرے کو بھی انہی کاموں کی تعلیم سے آراستہ کرے، جو معاشرے میں انفرادی اور اجتماعی نیک تبدیلی کا اہم راز ہے۔۔ آج چونکہ ولادت با سعادت پر ہی بات کرنی ہے تو اس سلسلے میں”ولادت نبوی ” سے تلخیصا چند اقتباسات پیش خدمت ہیں– چنانچہ آپ کی ولادت با سعادت کا تذکرہ کرتے ہوئے امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا،کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا دن کسی ریگستانِ حجاز کی بادشاہت کا پہلا دن نہیں تھا، یہ عرب کی ترقی و عروج کے بانی کی پیدائش نہیں تھی،یہ محض قوموں کی طاقتوں کا اعلان نہ تھا، یہ صرف نسلوں اور ملکوں کی بزرگی کی دعوت نہ تھی،بلکہ خدا کی ایک ہی اور عالمگیر بادشاہت کے عرشِ جلال و جبروت کی آخری اور دائمی نمود تھی۔ اسی طرح اپنی کتاب” ولادت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم” میں ” تذکارِ مقدس” کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں، کہ جب زمین پیاسی ہوتی ہے تو رب السموات والارض پانی برساتا ہے، جب انسان اپنی غذا کے لئے بیقرار ہوتا ہے تو وہ موسمِ ربیع کو بھیج دیتا ہے، جب خشک سالی کے آثار چھا جاتے ہیں،تو آسمانِ رحمت پر بدلیاں چھا جاتی ہیں۔عالم انسانیت کی فضائے روحانی کا ایک ایسا ہی انقلاب عظیم تھا، جو چھٹی صدی عیسوی کے وسط میں ظاہر ہوا، وہ رحمت الہی کی بدلیوں کی ایک عالمگیر نمود تھی، جس کے فیضانِ عام نے تمام کائنات ہستی کو سر سبزی و شادابی کی بشارت سنائی، وہ خدا وند قدوس جس نے سینا کی چوٹیوں پر کہا تھا کہ میں اپنی قدرت کی بدلیوں کے اندر آتشیں بجلیوں کے ساتھ آؤں گا،اور دس ہزار قدسیوں کے ساتھ میرے جاہ جلال الہی کی نمود ہوگی، سو بالاخر وہ آ ہی گیا،اور سعیرو فاران کی چوٹیوں پر اس کے ابرِ کرم کی بوندیں پڑنے لگیں ! یہ ہدایت الہی کی تعمیل تھی، یہ شریعت ربانی کے ارتقاء کا مرتبہ آخری تھا، یہ سلسلہ ترسیل و رسل و نزول صحف کا اختتام تھا،یہ سعادت بشری کا آخری پیام تھا، یہ وراثت ارضی کی آخری بخشش تھی،یہ امت مسلمہ کے ظہور کا پہلا دن تھا، اور اس لئے کہ یہ حضرت ختم المرسلین و رحمت العالمین محمد بن عبداللہ کی ولادت با سعادت کا دن تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر کائنات ہستی کی تیاری کا عالم بھی ملاحظہ فرمائیں، کہ رات لیلۃ القدر بنی سنوری ہوئی نکلی، اور خیر من الف شہر کی بانسری بجاتی ہوئی ساری دنیا میں پھیل گئی، موکلانِ شب قدر نے من کل امر سلام کی سیجیں بچھا دیں۔ ملائیکان ملاء الاعلی نے تنزل الملائکۃ والروح کی شہنائیاں شام سے ہی بجانی شروع کردی، حوریں باذن ربھم کے پروانے ہاتھوں میں لے کر فردوس سے چل کھڑی ہوئیں، اور ھی حتی مطلع الفجر کی میعادی اجازت نے فرشتگان مغرب کو دنیا میں آنے کی اجازت دے دی،تارے نکلے اور طلوع ماہتاب سے پہلے عروس کائنات کی مانگ میں موتی بھر کر غائب ہو گئے،چاند نکلا اور اس نے فضائے عالم کو اپنی نورانی ردائے سیمیں سے ڈھک دیا، آسمان کی گھومنے والی قوسیں آپ اپنے مرکز پر ٹھر گئیں، بروج نے سیاروں کے پاؤں میں کیلیں ٹھونک دیں۔ہوا جنبش سے، افلاک گردش سے، زمین چکر سے اور دریا بہنے سے رک گئے،کارخانۂ قدرت کسی مقدس مہمان کا خیر مقدم کرنے کے لئے رات کے بعد اور صبح سے پہلے بالکل خاموش ہو گیا، انتظام و اہتمام کی تکان نے چاند کی آنکھوں کو جھپکا دیا، نسیم سحری کی آنکھیں جوشِ خواب سے بند ہونے لگیں، پھولوں میں نکہت،کلیوں میں خشبو، کونپلوں میں مہک محو خواب ہو گئی، درختوں کے پتے مشام خوشبوئے قدس سے ایسے مہکے کہ پتا پتا مخمور ہو کر سر بسجود ہو گیا، بالاخر وہ لمحہ آ پہنچا جس کے لئے یہ سب انتظام کیے گئے تھے، ملہم غیب نے منادی کی کہ افضل البشر، خاتم الانبیاء سرا پردۂ لاہوت سے عالمِ ناسوت میں تشریف لانے والے ہیں، سبحان اللہ ربیع الاول کی بارویں تاریخ کی مقدس ہے کہ جس میں رحمت عالم نے نزول اجلال فرمایا۔ اللہ تعالی ہم سب کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طور طریقوں پر چلنے کی توفیق اور ہمت نصیب فرمائے آمین۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email