مبارک ہو تم کو یہ شادی تمہاری

آج کی شام بہت مانوس تھی ، فضا میں ہلکی پھلکی خنکی موجود تھی۔ ماحول میں لطافت تھی۔ بنی گالہ کی خوشگوار ہوا نے لوگوں کو سہلانا شروع کر دیا تھا۔ آسمان صاف تھا، فضا پاکیزہ نور میں نہائی ہوئی تھی، بنی گالہ پر عجیب رنگ چڑھا ہوا تھا ، درخت ، فصلیں،گھاس ، پتھر ،انسان، پرندے سبھی زندہ تھے، ہر طرف مسرور فضائیں کسی خاص مہمان کا استقبال کرنے کو بے تاب ان کی آمد کے منتظر تھیں۔غلمانِ بے قرار ” مغرب ” اور ” شمال ” سے وابستہ گزرے اوقات کی تلخ داستانیں دفنانے میں مصروف تھے۔کہ یکایک عمران خان نے بنی گالہ میں واقع اپنے محل کی اچانک بڑے پیمانے پر صفائی کر کے عود کی بتیاں جلانے کا حکم صادر فرمایا۔ خادمین دربار نے پلک جھپک میں اپنے آقا کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ” مستقبل ” میں پیران سیاست کے لیے آستانۂ اقدس کے طور پر استعمال ہونے والے محل کی خوب صفائی کی۔ جتنے برتن جمائما اور ریحام خان کے استعمال میں تھے وہ سب کوڑا دان کی نذر ہو گئے۔ جن کمروں میں انھوں نے ماضی کی رفاقت نبھاتی ہوئی سانسیں لی تھیں ان کمروں کو دھونی دی گئی۔جہاں ان کے قدم لگے تھے وہاں سے جادوئی اثر زائل کیا گیا۔ ماضی میں طلاق کا سبب بننے والی وجوہات کا جائزہ لیا گیا ، چارپائیوں کے آس پاس اور نیچے جادوئی تعویذ اور گنڈوں کے موجود ہونے کی اطلاع پر مذکورہ مقامات کا سرچ آپریشن کیا گیا۔ محل کے اس حصے کی صفائی خود خان صاحب کی نگرانی میں ہوئی جو حصہ ماضی میں ریحان خان اور ان کے بیٹوں کے رہنے کے لیے اکثر استعمال ہوا۔ فرنیچر تبدیل کرنا (بقولِ مرشد) فضول خرچی کے ضمرے میں آتا تھا۔ اس لیے پرانے فرنیچر پر ہی اکتفا کر لیا۔البتہ ان کی تہہ سے بھی ہر نحوست کی جڑھ اتار پھینکنے کی درباریوں نے بھی پوری کوشش کی ، اور مؤکلانِ خدا ترس کی معاونت بھی اس مبارک کام میں قدم قدم پر ساتھ رہی۔ بالآخر وہ وقتِ موعود آ ہی پہنچا جس کی خبر سالِ نو کے آغاز میں ہی بریک ہوئی تھی ، اور اس وقت ” آفیشل گواہان ” نے بھی اس خبر کی تردید کی تھی اور خان صاحب کے ” ذاتی نکاح خواں ” نے بھی اس پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا تھا۔ بہرحال کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے ، 18 فروری 2018 بروز اتوار کو خان صاحب نے خود بھی اس بات کی تصدیق کی کہ ان کا نکاح بشری بی بی عرف پنکی پیر سے ہو چکا ہے۔ جب اس خبر کی ہر لحاظ سے تصدیق ہو گئی ہے اور پیرنی صاحبہ بشمول اپنی تمام مؤکلان و مؤکلات جب بنی گالہ تشریف لا چکی ہے تو ہماری طرف سے بھی انصافی دوستوں اور احباب کو دل کی گہرائیوں سے ان کے قائد کا یہ روحانی سفر مبارک ہو۔
امید ہے کہ روحانیت کا یہ سفر خان صاحب کو ” منزل عظمی ” تک پہنچانے میں کارگر ثابت ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور خوشی کی بات یہ بھی ہے کہ روحانیت کا جو عہدہ اور منصب پہلے جناب خاور مانیکا نے بشری بی بی کی رفاقت میں کافی پاپڑ بیلنے کے بعد حاصل کیا تھا ، وہ ہمارے خان صاحب کو بیٹھے بیٹھائے مل گیا۔ زندگی چونکہ اضداد کا مجموعہ ہے اس لیے خوشی کی اس خبر کے ساتھ ساتھ ہمیں بے چین کر دینے والی خبر اس سلسلے کی یہ ہے کہ اگر 2018 کے آمدہ الیکشن میں بھی خان صاحب وزارت عظمی کی کرسی پر بیٹھنے سے پیچھے رہے تو سیاست کو الوداع کہہ کر روحانیت میں بشری بی بی کا ہاتھ بٹانے کی ٹھان لی ہے۔ خان صاحب کی شادی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر مختلف خبریں اور آراء دیکھنے اور پڑھنے کو مل رہی ہیں۔ عمران خان کا ان خبروں اور افواہوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ان کا اپنا ایک سفر ہے جو جاری ہے۔ ان کی اپنی ایک منزل ہے جو متعین ہے ، چونکہ ملکی سیاستدان کے حوالے سے جو بھی خبر ہوتی ہے وہ ہر صورت میں بریک ہو کر ہی رہتی ہے۔ چاہے وہ خبر ان کی ذاتی زندگی سے تعلق رکھتی ہے، یا قومی ایشو پر ان کی کوئی رائے ہے۔ شادی کرنا سنت رسولﷺہے اور حدیث پاک میں اس کی ترغیب اور نہ کرنے پر وعید بھی سنائی گئی ہے۔ اور قرآن حکیم نے ایک مرد کو بیک وقت چار شادیوں کی بھی اجازت دی ہے۔ اس اعتبار سے خان صاحب نے کسی غیر شرعی کام کا ارتکاب نہیں کیا۔ لیکن بات پھر گھوم پھر کر وہیں تک آ جاتی ہے جو عمران کی شادی کی خبر سن کر مسلم لیگ نون کے ترجمان طلال چوہدری نے کہی تھی۔ کہ خان صاحب اچھا کام بھی برے انداز سے کرتا ہے۔ اب اس میں برائی کیا ہے ؟ برائی ایک تو یہ ہے کہ خان صاحب نے اپنی سابقہ بیوی ریحام خان کے ساتھ ہونے والے نکاح کی خبر ریحام خان کے بقول ڈھائی مہینے تک چھپا کر رکھی۔ جبکہ اسلام کا مزاج یہ ہے کہ نکاح کی خوب تشہیر ہونی چاہئے۔ اور اب کی بار بھی خان صاحب نے ایک مدت تک یہ خبر چھپا کر رکھی۔ گزشتہ دنوں خان صاحب کی شادی کی خبر بریک کرنے والے صحافی عامر چیمہ کا کہنا ہے کہ خان صاحب نے اس بار بھی حسبِ سابق اپنے نکاح کی خبر ایک مدت تک چھپائے رکھی۔ اور یہ خبر چھپانے کی ایک حکمت یہ تھی کہ بشری بی بی کی عدت طلاق ختم ہونے میں اس وقت ایک عرصہ باقی تھا، چونکہ یکم جنوری کے دن کو اس نکاح کے لیے وقتِ مسعود گردانا گیا تھا اس لیے عدت کے اختتام سے پہلے ہی یہ نکاح عمل میں لایا گیا۔ ان سب کے باوجود ملکی سیاست میں خان صاحب کا مقام بہت قابل تحسین ہے کہ انھوں نے کرپٹ حکمرانوں کے چہرے سے نقاب اتار کر سیاست کے بازار میں ان کا ساٹھ ، ستر سالہ داغدار کیرئیر عوام کے سامنے رکھا۔ اس لیے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ
مبارک ہو تم کو یہ شادی تمہاری !

Print Friendly, PDF & Email