وقت کم اور مقابلہ سخت

یہ بات حقیقت ہے کہ وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔ 25 جولائی 2018 کی شام تاجِ اقتدار کس کے سر سجا کر رخصت ہوگی۔اگلے پانچ سالوں تک قوم کی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار کسے سونپا جائے گا۔ الیکشن کمپین کے دوران قوم یہ فیصلہ کرنے سے عاجز ہوتی ہے کہ الیکشن کے دن ان کے ووٹ کا اصل حقدار کون ہے۔؟ کیونکہ ان دنوں جلسے، جلوسوں اور انتخابی کمپینز میں گلے پھاڑ پھاڑ کر تقریر کرنے والے امیدواران پہلے تو مظلوم بننے کی وہ کوشش کرتے ہیں کہ ایک با ضمیر شخص ان کی ایک تقریر اور ان کی مظلومیت کی جھوٹی داستان سن کر ووٹ تو کیا، اپنے منہ کا نوالہ بھی انہیں دینے کو تیار ہوتا ہے۔ پانچ سالوں تک عوام کے ہر مصائب اور تکالیف سے بے خبر یہ ممبرز آج الیکشن کے موسم میں ان کے پاؤں پڑنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اسی طرح کا ایک واقعہ گزشتہ دنوں پنجاب کے ایک ضلع میں دیکھنے کو ملا، کہ مبشر رانا نامی امیدوار اپنے حلقے میں ووٹ مانگنے گئے تو ایک بزرگ شہری کے پاؤں پکڑ کر ان سے ووٹ مانگ رہا تھا۔ یہی صورت حال پورے پاکستان کے تمام اضلاع اور ہر صوبے کی ہے۔اس کے باوجود عوام کا مسئلہ یہ ہے کہ آج بھی عوام کو ان کے ووٹ کی قیمت معلوم نہیں ہو سکی۔انہیں سمجھائے تو کب تک اور کہاں تک سمجھائے کہ تمہارے ووٹ سے منتخب ہونے والے یہ نمائندے الیکشن جیتنے کے بعد تمہارے سلام کا جواب بھی دینے والے نہیں ہیں۔ یہی ہماری کمزوری ہے کہ الیکشن میں اپنے ووٹ کا غلط اور بے محل استعمال کر کے اگلے پانچ سالوں تک ایک بار پھر افسوس کی انگلی دانتوں میں دبائے رکھتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ 40 سالوں سے جاری ہے۔ اکیسویں صدی میں سال 2018 کو اگر عوام کی بیداری کا سال بھی قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہر پاٹی اپنے کارکنوں اور ورکرز کو حفظ ما تقدم کے طور پر یہ باور کراتی نظر آتی ہے کہ وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ تمام بڑی پارٹیاں امید اور خوف کے درمیان معلق ہیں۔ کسی علاقے ضلعے یا صوبے میں کسی بھی بڑے پروجیکٹ پر کام اگر مکمل ہو چکا ہے تو آج الیکشن کے جلوسوں میں ہر پارٹی اس پروجیکٹ کو اپنے نام کرنے پر تلی ہوتی ہے۔ اس قسم کے کئی واقعات سامنے آ چکے ہیں۔ کہ کسی پروجیکٹ کی تکمیل بظاہر کسی اور پارٹی کے دور میں ہوئی ہے۔ لیکن افتتاحی بورڈ پر جلی حروف کے ساتھ کسی اور کا نام چمک رہا ہوتا ہے۔ اس کی ایک معمولی مثال ہم چترال یونیورسٹی کی لے سکتے ہیں۔ اس یونیورسٹی سے متعلق بزعم خویش ہر پاٹی وہم و گمان کی بلندیوں پر پرواز کر رہی ہے۔ نتیجتاً ہوتا یہ ہے کہ اصلی محسن نقالوں کے ہجوم میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ اور یوں کسی کی عوامی خدمات کسی کی ایک تقریر کی نظر ہو جاتے ہیں۔ اور عوام کو معلوم تک نہیں ہوتا کہ اس کام کی تکمیل کا اصلی ہیرو اور اصل حقدار کون ہے۔؟ گزشتہ دنوں ایم ایم اے چترال کے ایک جلسے میں یہ بات سننے کو ملی کہ جن کمروں کو آج چترال یونیورسٹی قرار دیا گیا ہے وہ تمام کمرے سابقہ ایم ایم اے کی مرہون منت ہیں۔ اور ان کو بنانے میں سابقہ ایم ایم اے کے نمائندوں کا اہم کردار رہا ہے۔ دوسری طرف نون لیگ چترال یونیورسٹی کی بنیاد سے لے کر آج تک کی تمام کار کردگی اپنے نام کر بیٹھی ہے۔ اور جب کریڈٹ کے ایسے محاذ میں شہرت کی جنگ الفاظ کے توپوں سے لڑی جا رہی ہو تو پی ٹی آئی کیونکر پیچھے رہ سکتی ہے۔ حالیہ الیکشن میں تمام پارٹیوں کے لئے وقت کم اور مقابلہ سخت اس وجہ سے بھی ہے کہ اس بار ہر پارٹی اپنے تئیں مذہبی رنگ دینے کی کوشش کرتی ہے۔ ماضی کی سیکولرز جماعتیں بھی آج ووٹ بٹورنے کی خاطرمذہب کا لبادہ اوڑھ کر میدان میں موجود ہیں۔ اور پاکستانی عوام تو ان لوگوں پر اپنی جان بھی نچھاور کرتے ہیں جو دین اور اسلام کے نام سے سامنے آتے ہیں۔ اس کی بڑی اور واضح مثال آپ تحریک لبیک کی لے سکتے ہیں کہ ایک سال کے قلیل عرصے کی سیاسی مسافت طے کرنے بعد آج پاکستان کی وہ چوتھی پارٹی ہے کہ جس کے سب سے زیادہ امیدوار انتخابات میں حصہ لیں گے۔اور ایک حد تک کامیابی کی ایک واضح منزل ان کو نظر بھی آ رہی ہے۔ یہ مذہبی جنونیت پنجاب اور سندھ کے مختلف علاقوں میں تو واضح دکھائی دے دہی ہے۔ خیبرپختونخوا کی عوام اس کے ساتھ ساتھ ترقیاتی کاموں کو بھی شعور کی آنکھ سے دیکھنے لگی ہے۔ اس سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ خیبرپختونخوا میں وہی جماعت حکومت بنا سکتی ہے جو مذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ ترقیاتی کاموں کا سہرا بھی اپنے سر سجا چکی ہو۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو چترال کی صورت حال یکسر مختلف نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چترال میں الیکشن سے پہلے تو لوگ مذہبی اور عوام دوست نمائندہ چننے کے چکر میں ہوتے ہیں۔ لیکن انتخابی نتائج الیکشن مہم کے دوران نظر آنے والی صورت حال کے بر عکس نکلتے ہیں۔ کیونکہ چترال میں جس طرح مذہبی ووٹوں کی بہتات ہے اسی طرح لوگ قومیت اور برادری پر بھی مر مٹتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی پارٹی کے الیکشن مہم کے دوران صف اول میں نظر آنے والے لوگ الیکشن کے دن حریف جماعت کے امیدوار برادری سے تعلق رکھنے والے کو ووٹ تھما دیتے ہیں۔ اس لئے اس پر بات کرنا قبل از وقت ہوگا کہ چترال میں اکثریت کن کی ہے۔ اور جیتنے کے واضح امکانات کس طرف ہیں۔؟ ہاں یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اس بار ہر پارٹی کے پاس وقت کم اور مقابلہ سخت ہے

Print Friendly, PDF & Email