اے بسا آرزو کہ خاک شدہ

ہم نے نئے سال کا افتتاح احتجاجی مظاہروں سے کیا، کسی بھی جمہوری ریاست کی ناکامی یہ ہے کہ ریاست کی عوام اپنے جائز ضروریات اور حقوق انسانی سے محروم رکھے جائیں۔ اور اپنی ضروریات کا مطالبہ کرنے کے لیے عوام احتجاجی مظاہروں کا سہارا لیں۔ پورے ملک میں احتجاجی مظاہروں کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، شریف برادران کی اچانک سعودی عرب روانگی کے بعد این آر او لگنے کی ممکنہ خبروں سے بھی عوام اور سیاستدانوں میں بے چینی کی سی کیفیت ہے، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے این آر او نافذ کرنے کی صورت میں پہلے سے عوام کو احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکلنے کی کال ابھی سے دی ہے۔ دوسری طرف قانون ناموس رسالت میں تبدیلی کرنے والے اصل مجرم کا نام ابھی تک صیغہ راز میں رکھا گیا ہے، پیر حمیدالدین سیالوی اس جرم کے ارتکاب کا سب سے بڑا مجرم وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ کو قرار دے کر پنجاب حکومت سے وزیر قانون پنجاب کے استعفے کا فوری مطالبہ کیا ہے، جبکہ مطالبہ کی عدم تکمیل پر پنجاب حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا ہے، جبکہ اسی سے ملتی جلتی خبر یہ بھی ہے کہ عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے بھی ماڈل ٹاؤن سانحے کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد مقتولین ماڈل ٹاؤن کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے حکومت پر مختلف انداز سے راستے بدل بدل کر دباؤ ڈالنے میں مصروف ہے، اس سلسلے میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے سربراہان سے ان کی مشاورت بھی ہو چکی ہے، یہ مختلف دھمکیاں، احتجاج اور مظاہرے کس حد تک حکومت سے اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں، آنے والا وقت ہی بتائے گا، سر دست یہ کہ پنجاب کی طرح خیبر پختونخواہ کے بھی مختلف اضلاع میں صوبائی حکومت کے خلاف مظاہرے نظر آنے لگے ہیں، اس حوالے سے ضلع چترال،جو کہ اب دو ضلعوں میں تقسیم ہو چکا ہے،ماضی قریب اور بعید میں صوبے کا سب سے پر امن ضلع تصور کیا جاتا رہا ہے، چترال کی عوام کئی سالوں سے اپنے جائز ضروریات سے محروم ہوتے ہوئے بھی کبھی کسی حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے لیے سڑکوں پر نہیں نکل آئی، چترال کو جائز ضروریات سے محروم رکھ کر ان کے ساتھ سوتیلی ماں کا سلوک کئی حکومتی ادوار سے لے کر اب تک جاری ہے، یہ ہماری صوبائی حکومت کے لیے کوئی نیک شگون نہیں ہے کہ سالِ نو 2018 کی ابتداء چترال میں صوبائی اور مرکزی حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں سے ہوئی ہے، بکرے کی ماں آخر کب تک خیر منائے گی، چترال کی سڑکیں کھڈوں کا منظر پیش کر رہی ہیں، کئی اہم مقامات پر سیلاب کی نظر ہونے والے پْل انتظار کی کئی گھڑیاں گزرنے کے باوجود ابھی تک تعمیر نہ ہو سکے، بجلی کا نظام کم و بیش چار سالوں سے درہم برہم ہے، پورا چترال ٹاؤن سمیت تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے، گولین گول پاؤر پروجیکٹ کی تکمیل کو چترال کی قسمت بدلنے والا پروجیکٹ کہنے والے لوگ خود مایوسی کا شکار نظر آ رہے ہیں، کیونکہ اپر چترال کو اب بھی ہمارے مقتدر قوتیں تاریکی میں ڈوبا ہوا ہی دیکھنا چاہتے ہیں، کسی سازش کے تحت اپر چترال کو اس پروجیکٹ کی پہنچ سے دور رکھنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ ستم ظریفی اور ظلم کی انتہا تو یہ ہے کہ احتجاج کرنے والوں کا مطالبہ بھی اپر چترال کے صرف 21 ہزار صارفین کو بجلی مہیا کرنے کا ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق اب حالات یہی بتا رہے ہیں کہ اپر چترال کے 21 ہزار صارفین کو بجلی اگر فراہم کی بھی گئی، تو پھر بھی اپر چترال کے وہ دور دراز علاقے جیسے مڑپ، شوت، اودیر،لگتا ہے کہ آج بھی اپنے حقوق کے حصول میں ناکام ہی رہیں گے، اگر صوبائی حکومت اس زرین موقع سے فائدہ اٹھا کر اگر اپنا ” تبدیلی آ گئی ” والا نعرہ عملی طور پر نافذ کر کے چترال اور پھر اپر چترال کے دور دراز علاقوں کو ریلیف دینے میں کامیاب ہو جاتی، تو یقیناًآج ہر ایک کی زبان پر یہی نعرہ ہوتا کہ ” تبدیلی آ نہیں رہی، تبدیلی آچکی ہے ” لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ

Print Friendly, PDF & Email