شورش مستوج کے ایک سو ایک سال (پہلی قسط )

آج سے ٹھیک ایک سو ایک برس قبل چترال کے شمالی خطہ یعنی مستوج میں کٹور حکومت کے خلاف ایک شورش برپا ہوا جس کی قیادت مستوج چوئنج سے تعلق رکھنے والے پیر بلبل شاہ کررہے تھے۔جسے تاریخ چترال میں "شورش مستوج” یا’بلوہ مستوج’ اور ‘بغاوت مستوج جیسے اصطلاحات سے یاد کیا جاتا ہے۔ شورش مستوج کے پس پردہ کیا سیاسی واقتصادی مفادات وابستہ تھے۔ اس پرسے ابھی تک پردہ نہیں اٹھایا گیا۔ البتہ تاریخ میں بعض مقامات پر اس شورش کو اسماعیلی ریاست کے قیام کی ایک جدوجہد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ محققین کا ایک گروہ پیر بلبل شاہ کو باغی رہنما کے طورپر یاد کرتے ہیں جس نے کٹور حکمرانی کے دورِ تاریکی میں عوامی حقوق کے لیے آواز بلندکی۔ البتہ ابھی تک پیر بلبل شاہ کے سیاسی عزائم اور اسماعیلی مکتبہ فکر کو پہنچنے والے نقصانات کی جانب توجہ نہیں دی گئی۔ شورش مستوج کے سیاسی و اقتصادی پس منظر کو بیان کرنے سے قبل اس پورے مظہر کو تاریخی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کریں گے تاکہ پتہ چل سکے کہ آخر 1917ء کو مستوج جیسے دورافتادہ علاقہ میں جنم لینے والے عوامی بے چینی اور ریاست کے خلاف اٹھنے والی تحریک کے پیچھے کونسے عوامل کارفرماتھے؟
1857ء کو امان الملک بڑی کشت وخون کے بعد تخت چترال پر قابض ہوگئے۔تاریخ میں امان الملک کو ” لوٹ متار” یعنی بڑا مہتر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ،مہتر امان الملک توسیع پسندی کے لیے مشہور تھا جس نے اپنے قلمرو کو افغانستان کے علاقہ چقانسرائے سے شاہ سلیم اور واخان سے لیکر پونیال گلگت تک توسیع دی۔ یاسین اور غذر کا علاقہ جو کہ خوشوخت خاندان کے زیر نگین تھا۔ مہتر امان الملک نے اقتدار میں آنے کے بعد ان علاقوں سے خوشوخت خاندان کی حکمرانی ختم کرکے انہیں بھی براہ راست اپنی تحویل میں لے لیا۔امان الملک 1857 سے 1892ء تک یعنی 36 سالوں تک اس پہاڑی خطے پر بلا شرکت غیرے حکومت کر نے کے بعدبالآخر1892ء میں وفات پاگئے۔ اس کے ساتھ ہی ریاست چترال میں نہ ختم ہونے والی شورشوں کا سلسلہ شروع ہو ا جس کے نتیجہ میں صرف تین برسوں یعنی 1892ء سے 1895ء (انگریزوں کی آمد) تک پانچ مہتران تخت چترال پر متمکن اور بھائیوں ،بھتیجوں یا چچا ؤں کی سازش سے قتل کردئیے گئے۔بالآخر مارچ 1895ء میں انگریزوں نے شندور کے یخ بستہ برفانی درے کو عبور کرکے لاسپور میں داخل ہوئے۔جہاں راستے میں معمولی مذاحمت کا ان کو سامنا کرنا پڑا۔ ہرچین کی مذاحمت، مستوج ، نصرگول ، دراسن ،کوراغ پھر ریشن کی مڈھ بھیڑ کے بعد بالآخر انگریزفوج کرنیل رابرٹ سن اورکرنل ہیری کی قیادت میں قلعہ چترال پہنچ گئے۔ اس کے بعد چالیس دن سے زائد کے طویل محاصرہ اور جنگوں ،نیز انگریزوں کی ڈپلومیسی کے بعد بالآخر چترالی باغیوں کو پسپائی ہوئی اور انگریزوں نے امان الملک کے چھ یا نوسالہ بیٹے شجاع الملک کو اگلا مہتر چترال مقرر کردیا۔ ان کی کم سنی کی وجہ سے عنان اقتدار وزیروں،مشیروں اور زغماء میں تقسیم کی گئی۔ ساتھ ہی ساتھ اسی دور میں انگریزوں نے مہتر کی کم سنی کے بہانے ریاست کے حصے بخرے کردئیے۔ بالائی چترال یعنی مستوج کے علاقہ کو ریاست سے علیحٰدہ کرکے الگ حکمرا نی قائم کی گئی جبکہ غذر، یاسین تاپونیال تک کے علاقے انگریزوں نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ جب مہتر چترال شجا ع الملک نے ہوش سنبھالا تو انگریز سرکار سے ریاست کے علاقے یعنی مستوج اور غذر ویاسین (جسے چترال میں ورشیگوم کہا جاتا ہے )تا پونیال تک کے علاقے دوبارہ ریاست چترال کے ساتھ الحاق کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ۔ 1910ء میں جاکر مستوج کا دوبارہ ریاست چترال سے انضمام ہوا جبکہ غذر ، ورشگوم (یاسین ) تا پونیال تک کے علاقے بدستور علیٰحدہ ہی رکھے گئے۔ بالآخر ہندوستان کے بٹوارے اور اس علاقے میں آنے والی جغرافیائی تبدیلیوں کے بعد قراقرم کے ان پہاڑی ریاستوں کو شمالی علاقہ جات کا نام دے ایک اکائی میں پرودیا گیا۔ جسے سن 2009 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت میں گلگت بلتستان خود مختاری حکم نامہ کے تحت گلگت بلتستان کا نام دیا۔خطہ مستوج کا 1910ء کو ہونے والا انضمام ہی شورش مستوج کی وجہ بنی۔ جس پر تفصیلی بحث اگلی قسط میں ملاحظہ کیجئے۔

Print Friendly, PDF & Email