تاریخ چترال کے بکھرے اوراق ،ایک تنقیدی جائزہ (تیسری قسط)

پچھلے کالم میں نامورمورخ ومحقق پروفیسر اسرارالدین صاحب  کی شائع ہونے والی کتاب ’’تاریخ چترال کے بکھرے اوراق‘‘ میں موجود مواد اور ابواب کا مختصراً جائزہ لینے کی کوشش کی  گئی تھی آج کے کالم میں اسی کتاب کا تنقیدی جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی۔
دورحاضر میں جو بھی کتاب شائع ہوتی ہے تو کتاب کے اوپر مصنف کی تصویر کے ساتھ جامع انداز سے مصنف کا تعارف بھی لکھا ہوتا ہے جس کا بنیادی مقصد مصنف کی شخصیت اور علمی کاوشوں سے ان طالب علموں کو باخبر کرناہے جو ان سے  نا واقف  ہوتے۔ ’’تاریخ چترال کے بکھرے اوراق‘‘ میں بنیادی نقص یہ ہے کہ مصنف سے متعلق اس میں خاموشی ہے ۔
پروف ریڈنگ:
جدید تحقیقی اصولوں میں پروف ریڈنگ اور ایڈیٹنگ کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں کسی بھی ادبی مواد کو شائع کرنے سے قبل مصنف کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ادب ولسانیا ت کے مستند افراد سے زبان وبیان میں مستعمل الفاظ اور جملوں کی درستگی کا بندوبست کریں چترال کے مصنفین کا المیہ یہ ہے کہ وہ پروف ریڈنگ کی جانب کوئی خاص توجہ نہیں دیتے جس کی وجہ سے اکثر تصانیف میں الفاظ وجملوں کی ترکیب میں نقائص پائے جاتے ہیں جو کتاب کی علمی معیار میں کمی کا موجب بنتے ہیں۔پروفیسر اسرار الدین صاحب کی کتاب ’تاریخ چترال کے بکھرے اوراق‘ میں اردو ادب کے قوائد وضوابط کا خیال نہیں رکھا گیا یوں گرامر اور الفاظ کے درست استعمال نہ ہونے کی وجہ سے نثر کی روانی  میں خلل کا باعث بنا ہے ۔
تاریخ ومقامات میں غلطیاں:
کتاب کے تیسرے باب ’چترال کی آرکیالوجی (جدید دورمیں)‘‘ میں خصوصیت سے پرواک کے مقام پر ہونے والی تحقیق اور کھدائی کا حوالہ دیاگیا ہے پروفیسر صاحب لکھتے ہیں’’ پرواک کو طبعی طورپر تین حصوں میں تقسیم کیاجاتاہے یعنی بالائی پرواک،درمیانی پرواک اور زرین پرواک ، ڈاکٹر آرل اسٹائن نے بھی پرواک میں داربتوشالی کے قلعے کی نشاندہی کی تھی اور کسی قدر یہاں کے حالات پر بھی لکھاتھا موجود ہ پراجیکٹ کے سرپرست ڈاکٹر احسان علی ،ڈائریکٹر محکمہ آثار قدیمہ وعجائب خانہ جات صوبہ سرحد فرما رہے تھے  اورٹیم مندرجہ ذیل اصحاب پر مشتمل تھی لیکچرر محمد طاہر (نگران)، بشیر حسین طاہر خیلی ،مہر رحمان خلیل ،محمد قاسم چترالی، اکبر الدین چترالی ، عبدالحمید چترالی ، میر حیات خان ( کیوریٹر چترال میوزیم ) وغیرہ ۔
جس مقام پر کام ہوا اس کو مقامی طورپر ’ڈوک‘ یعنی ٹیلہ کانام دیاجاتاہے روایت سے معلوم ہوتاہے کہ یہ جگہ پرانے زمانے میں تین بھائیوں میں سے ایک بھائی کا قلعہ تھا ان بھائیوں کی یہاں حکومت تھی جن کے نام شپیر، دربتوشالی اور ساق تھے‘‘۔( تاریخ چترال کے بکھرے اوراق،ص57)
مقامی لوک روایات کے مطابق شپیر / شاپیر کا مسکن پرواک پائین تھا زرین پرواک کامقامی نام شاپیرو لشٹ یا شاپیران لشٹ ہے داربتوشالی کا مسکن قدرت آباد یا لشٹ کے آخری شمال مشرق میں واقع تھا اس بیابان کو بیرونی علاقوں کے لوگ پرواک لشٹ جبکہ پرواک ،سنوغر اورنصرگول کے مقامی افراد لشٹ یا قدرت آباد کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔1950ء میں سابق گورنر مستوج خوشوخت الملک نے اس بیابان کے لیے نصرگول میں اوشنیر سے نہر نکال کر آباد کیا اور اس کا نام قدرت آبا درکھاگیاجبکہ پرواک اس سے جداعلاقہ ہے ۔قدرت آباد یا لشٹ کے آخری کونے میں مستوج جاتے ہوئے سڑک پر دائین جانب کھنڈر موجود ہے جسے داربتوشالی کا قلعہ کہاجاتاہے اسی بیابان میں قبرین ، مکانات کے نشان اورچاردیواری کے اثرات اب بھی موجود ہے ۔ قلعے کے مقام پر کافی عرصہ قبل خاکسار نے پختہ اینٹیں دیکھا تھا جب مستوج روڈ یہاں سے گزاری گئی تو اس قلعے کا بڑا حصہ سڑک کی تعمیر کے دوران تباہ ہوگیا اب وہاں صرف سرخ رنگت کے پتھروں کی دیوار اور ملبہ موجود ہے ۔ساک یا ساق کامسکن نصرگول سے ملحق ساکولشٹ یا ساقولشٹ تھا جس کو آج بھی اسی نام سے یادکیاجاتاہے اور ایک پہاڑی پر دیواروں اور سیڑھیوں کے اثرات اب بھی موجود ہے جسے ساکو نغور یعنی ساک کا قلعہ کہاجاتاہے ۔البتہ شاپیر کی رہائش کا پتہ لگانا ممکن نہیں بالائی پرواک میں موجود اس ٹیلے میں جہاں تحقیق ہوئی تھی شپیر ،شاپیر کا قلعہ تھا یا پرواک پائین میں کہیں ان کا مسکن تھا اس بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرناممکن نہیں۔ ان تینوں کی حکومت سے متعلق بھی کوئی قابل اعتبار مواد کا فقدان ہے اس لیے مقامی طورپر یہ کہاجاتاہے کہ شائد قبل ازمسیح میں یہ علاقہ آبا دتھا جو ان تین بھائیوں کی جاگیر تھا اس کے علاوہ شائد یہاں اور کوئی آباد ی سرے سے موجود ہی نہ ہو۔اس لیے یہ کہاجاتاہے کہ داربتوشالی،شاپیر/شپیر اور ساک/ساق کوئی حکمران نہیں بلکہ پرواک اور نصرگول کے پرانے باشندے تھے ۔
کتاب کا چوتھا باب ’چترال کا کالاش قبیلہ(سیگرکی تحقیق )‘کے عنوان سے ہیں جس میں تاریخ سے زیادہ ثقافت، رسم ورواج اور تہواروں کو اہمیت دی گئی ہے اسی دوران کالاش تاریخ، اس قوم سے متعلق مختلف تصورات جیساکہ یونانی یا اریائی النسل ہونے پر سرسری نگاہ ڈالی گئی ہے حالانکہ ایک اور قلم کار عنایت اللہ اپنی کتاب ’اشپاتا‘ میں مختلف لسانی، ثقافتی اور تہذیبی حوالوں سے جامع تحقیق کے بعد کالاش قبیلہ کو یونانی النسل ثابت کیاہے البتہ پروفیسر اسرار صاحب نے جدید آثاریاتی تحقیق سے ثابت ہونے والے شواہد سے کالاش کے یونانی النسل ہونے کو غلط قراردیا ہے ۔
پانچویں باب میں ’’چترال کے بعض پرانے باشندے :مرزارحمت نظر کی یادداشتیں ‘‘ کے عنوان سے ہیں اس باب میں مرزارحمت نظر نامی کسی شخص کی زبانی روایات کو بیان کرتے ہوئے چند ایک نسل کے لوگوں اور ان کی ابتداسے متعلق کہیں تفصیل سے اورکہیں اختصار کے ساتھ کام لیاگیا ہے ۔ حالانکہ تاریخی لحاظ سے ان چند نصب ونسل یاقوموں پر بات کرنا اس طالب علم کی نظر میں کسی خاص اہمیت کے حامل نہیں کیونکہ جن شواہد کا کتاب میں حوالہ دیا ہے وہ جدید تحقیقی اصولوں کے مطابق قابل اعتبار نہیں۔زبانی روایات کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ ہر قوم کے لوگ خود کو برتر ثابت کرنے کے لیے اپنا شجر نصب سمرقند ، بخارا، اصفہان وغیرہ کے مغزز گھرانے یا کسی بزرگ سے تعلق جوڑتے ہیں پھر افسانوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوتاہے ۔اگر واقعی چترال کی پرانی قومیتوں کا تذکرہ اتناہی ناگزیر تھا تو سب ڈویژن مستوج کے پرانے باشندوں کو کیوں نظر انداز کیاگیا ؟ یہ باب کتاب کی دلچسپی کو کم کررہی ہے ۔
’تاریخ چترال کے بکھرے اوراق ‘ میں دلچسپی آٹھویں باب کے بعد شروع ہوتی ہے جس میں برطانوی ہند کی چترال سے متعلق پالیسیوں ،یہاں کی دفاعی اہمیت اور حکمرانوں کی چپقلش پر انگریز محققین کی آراء کو جگہ دی گئی ہے اس میں بھی مسئلہ یہ ہے کہ  صرف انگریزوں کی تحریروں کو شائع کرنے کی وجہ سے اس دورمیں چترال میں وقوع پزیر ہونے والے سیاسی واقتصادی اور سماجی تحریکیں اور تبدیلیاں نظر اندا ز ہو چکی ہیں ۔
دسویں،گیارہویں اور بارہویں ابواب میں برطانوی ہند اور پاکستانی حکام کے ساتھ ریاست چترال کے حکمرانوں کی خط وکتابت کو اصل فارسی اور انگریزی متن کے ساتھ شامل کیاگیا ہے ۔البتہ فارسی خطوط کامکمل ترجمہ کی بجائے مفہوم وخلاصہ پیش کیاگیا ہے جو ان خطوط کی اصلیت کوکم کرنے کا باعث بن رہی ہے ۔
تیرہویں باب ’’چترال میں ذمہ دار حکومت کے قیام کی تیاریاں ‘‘کے عنوان سے ہے جس میں 1947ء سے لے کر 1953ء تک کے حالات کا احاطہ کیاگیا ہے لیکن اس باب میں ان سالوں کے دوران ہونے والی تبدیلیوں اورتحریک آزادی پر واضح اور جامع انداز اپنانے کی بجائے انتہائی سطحی طورپر بیان کیا ہے کوئی بھی قاری یہ سوچنے پر مجبور ہوتاہے کہ آخر چترال میں آزادی کی تحریک کس نے شروع کی اس تحریک کی قیادت کون کررہے تھے ؟وہ کون سے لیڈر تھے جنہیں عوامی جدوجہد کے جرم میں قیدوبند کی صعوبتوں ،جلاوطنی اور گھروں سے بے دخل کردیاگیا آخر جنگ آزادی چترال کے عظیم ہیرو مولانا نورشاہدین کاچترال کو کٹور خاندان کے جبروستم سے نکالنے میں کیاکردارتھا؟ پاکستان بننے کے بعد جب ریاست چترال نے غیر مشروط طورپر پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کافیصلہ کیا تو اس وقت ہونے والے معاہدے کی کوئی دستاویزموجود ہے اور پاکستان کی جانب سے چترال میں جن افسران کو تعینات کیاگیاتھا ان کے اسمائے گرامی اور عہدے کیاتھے؟
پروفیسر اسرارالدین صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں’’دراصل چترالیات کا موضوع ایک وسیع موضوع ہے اس پر سیر حاصل تحقیق کے لیے ایک مکمل تحقیقی ادارہ ہونا ضروری ہے اس ضرورت کے پیش نظر انجمن ترقی کہوار کی تحریک پر 1995ء میں تیسری بین الاقوامی ہندوکش ثقافتی کانفرنس کے شرکاء نے یہ قرارداد پیش کی تھی کہ’ چترال اسٹڈیز‘ کاقیام عمل میں لایاجائے جس میں چترال کے مختلف تاریخی،ثقافتی ،جغرافیاتی ، ماحولیاتی ، لسانی اور دیگر موضوعات پر تحقیق کی جاسکے ۔ اس وقت کے پیپلزپارٹی کی حکومت نے اس تجویز سے اصولی اتفاق بھی کیاتھا اور اس کے لئے ابتدائی طورپر بیس لاکھ روپے کی منظوری دی تھی لیکن بعد میں بعض وجوہات کی بناپر اس منصوبہ پر پیش رفت نہ ہوسکی اب کم ازکم اگر چترال میں قائم شدہ بعض یونیورسٹیوں کے کیمپسس میں چترالیات کا شعبہ کھول کے اس اہم کام کا آغا کیاجائے تو یہاں کی ایک دیرینہ ضرورت پوری ہوسکے گی۔
چترال امکانات اور مواقع کی سرزمین ہے پاکستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے حوالے سے اس کا محل وقوع اس کی شاندار مستقبل کا ضامن ہے‘‘(تاریخ چترال کے بکھرے اوراق ،ص 254-55)۔
پروفیسر اسرارصاحب لفظ چترالیات کوبطوراصطلاع استعمال کرنے والاشائدپہلادانشور ہے جہاں تک چترا ل میں موجود یونیورسٹی کیمپسں میں’چترالیات ‘کے شعبے کے قیام کاتعلق ہے تو پروفیسر صاحب کے علم میں اضافے کے لیے یہ بات ہی کافی ہے کہ چترال کے بڑے بڑے تعلیمی اداروں کی لائبریریوں یہاں تک کہ میونسپل لائبریری میں بھی چترال سے متعلق کوئی تصنیف نہیں ملتی تو ان اداروں سے چترالیات کو بحیثیت شعبہ قائم کرنے کی امید  رکھنا عبث ہے۔
پروفیسر اسرارالدین صاحب کی حالیہ شائع شدہ کتا ب ضلع چترال کی تاریخ نویسی میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے جس میں مختلف قسم کے ان مواد کو اردوزبان میں پیش کیاگیا ہے جو انگریزی اور فارسی زبان میں مختلف حصوں میں بکھرے پڑے تھے۔

Print Friendly, PDF & Email

تبصرہ

  1. فرید احمد رضا

    بہت اچھی بات ہے مزہ آیا علمی کتابوں کو اسطرح پرکھنا چاہیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے