چترال کی انتخابی سیاست !تاریخی تناظر میں

1969ء کو چترال سے ایف سی آر کا خاتمہ کرکے اسے براہ راست اس وقت کے صوبہ سرحد میں ضم کردیا گیا اور 1970ء کے انتخابات میں اہالیان  چترال کو بھی انتخاب میں حصہ لینے کا موقع ملا۔ 1970ء کے انتخابات میں چترال سے قومی اسمبلی کی ایک نشست پرمسلم لیگ کے اُمیدوار اتالیق جغفر علی شاہ جبکہ صوبائی اسمبلی کی نشست پر قادر نواز آزاد اُمیدوار کے طورپہ کامیاب ہوئے۔ قادر نواز کو بعد میں پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت میں بلدیات اور کھیلوں کا وزیر بنایا گیا۔ اس کے بعد 1977ء کے انتخا بات میں چترال سے قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے امیدوار مولانا محمد ولی المعروف شیشیو مولوی ،جبکہ صوبائی اسمبلی کی واحد نشست پر پی پی پی ہی کے غفور شاہ کامیاب ہوئے ۔77کے انتخابات سے قبل بھٹو نے چترال کو صوبائی اسمبلی میں دو نشستیں دینے کا فیصلہ کیا لیکن قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے اس الیکشن میں وہ فیصلہ قابل عمل نہ ہوسکا (جس کاا طلاق 85ء کے غیر جماعتی انتخات میں ہوا)۔لیکن پی این اے کی تحریک اور بعد میں ضیاالحق کے مارشل لاء نے نظام کو لپیٹ دیا۔ 1985ء میں ضیائی آمریت میں غیر جماعتی انتخابات ہوئے جس میں(بھٹو دور کے نافذ کردہ ) صوبائی اسمبلی کے دو نشستوں میں سعید احمد خان اور ظفر احمد کامیاب ہوئے جبکہ قومی اسمبلی میں شہزادہ محی الدین کامیاب رہے ۔بعد میں گورنر سرحد جنرل فضل الحق کی ایما پر چترال کی ایک نشست ختم کرکے کوہستان منتقل کیا گیا جس کی وجہ سے 1988ء کے عام انتخابات میں چترال سے صوبائی اسمبلی کی صرف ایک نشست رہ گئی۔ عام انتخابات میں قومی اسمبلی میں محترمہ نصرت بھٹو او رصوبائی اسمبلی کی واحد نشست پر پی پی پی کے ہی امیدوار مولوی محمد ولی کامیاب ٹھہرے۔ جب بیگم نصرت بھٹو نے یہ سیٹ خالی کردی تو ضمنی انتخاب میں پی پی پی کے امیدوار غفور شاہ کو کامیابی ملی۔ 1990ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی میں آئی جے آئی کے امیدوار شہزادہ محی الدین جبکہ صوبائی اسمبلی میں مولانا غلام محمد کامیاب ہوئے۔ 1993ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست پر مولانا عبدالرحیم جبکہ صو بائی اسمبلی میں پی پی پی کے امیدوار زین العابدین کو کامیابی ملی ۔ 1997ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست مسلم لیگ ن کے شہزادہ محی الدین جبکہ صوبائی اسمبلی کی واحد نشست پر مسلم لیگ ن ہی کے سعید احمد خان کامیاب قرار پائے۔ 1998ء کی مردم شماری کے نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے 2002ء میں انتخابی حلقہ بندیوں کا مرحلہ آیا اس بار چترال کو صوبائی اسمبلی کی دونشستیں ملی جب انتخابات کا انعقاد ہوا تو قومی اور صوبائی اسمبلی کی دونوں نشستوں پر متحدہ مجلس عمل کے امیدواروں کو کامیابی ملیں۔ قومی اسمبلی سے مولانا عبدالاکبر چترالی جبکہ صوبائی اسمبلی کے لوئر چترال سے مولانا عبدالرحمن اور اپر چترال سے مولانا محمد جہانگیر کامیاب ہوئے ۔ سن 2008ء کے الیکشن میں قومی اسمبلی کی نشست مسلم لیگ ق کے امیدوار شہزادہ محی الدین ، اپر چترال سے صوبائی اسمبلی پر ق لیگ ہی کے غلام محمد جبکہ لوئر چترال کی نشست پر پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار سلیم خان کو کامیابی ملی ۔ اسی طرح سن 2013ء کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست آل پاکستان مسلم لیگ کے امیدوا ر شہزادہ افتخار الدین ، اپر چترال کی صوبائی اسمبلی بھی اے پی ایم ایل کے حاجی غلام محمد اور لویر چترال کی صوبائی نشست پر پی پی پی کے امیدوار سلیم خان کامیاب ٹھہرے البتہ اپر چترال سے سید سردار حسین نے الیکشن ٹربیونل میں کیس لڑا او ر بالآخر غلام محمد نااہل قرار دئیے گئے جب ضمنی انتخاب کا مرحلہ آیا تو پاکستان پییلز پارٹی کے سید سردار حسین کامیاب ٹھہرے ۔

Print Friendly, PDF & Email