انتخابی حلقہ بندیاں!حقائق اور مفروضے

انتخابی حلقہ بندیوں سے متعلق چترال سے صوبائی اسمبلی کی ایک نشست کے خاتمہ کا کیس الیکشن کمیشن سے ہارنے کے بعد ہر جانب الزام تراشیوں کابازار گرم ہے ۔ سیاست کار ایک دوسرے پر الزمات لگانے میں مصروف ہے ۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ تنقید پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت پہ ہورہی ہے ۔ سوشل میڈیائی دانشوروں اور سیاست دانوں کے مطابق اگر وزیر اعلی پرویزخٹک ضلع اپر چترال نوٹیفیکشن کردیتے تو شائد چترال سے صوبائی اسمبلی کی ایک نشست ختم نہ ہوجاتی ۔ سیاست دانوں کی جانب سے بیانات اور تنقید برائے تنقید کوئی انہونی نہیں۔
بدقسمتی سے عوام کی اکثریت بھی محض پسند وناپسند کی بنیاد پر رائے قائم کرتے ہیں ۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ بالفرض نومبر 2017ء کو پرویزخٹک پولو گراونڈ چترال میں ضلع اپر چترال کے قیام کااعلان نہ کرتے تو کیا چترال سے صوبائی اسمبلی کی دونوں سیٹ بچ جاتی ؟ آگے بڑھنے سے قبل موجودہ حلقہ بندیوں سے متعلق کچھ تلخ تاریخی حقائق پر بات کرتے ہیں۔ مئی 2017ء کو چترال میں مردم شماری کا انعقاد ہوا جس کا غیر سرکاری وغیر حتمی نتیجہ سوشل اور مقامی میڈیا کے ذریعے جولائی اور اگست 2017ء کو سامنے آیا اس میں چترال کی آبادی کو ساڑھے چار لاکھ کے قریب دکھایا گیا تھا ۔ لیکن سیاسی قیادت خاموش رہی ۔اس کے چند ماہ بعد پارلیمان (قومی اسمبلی اور سینٹ )سے انتخابی حلقہ بندیوں کا بل پاس ہو گیا چترال کی سیاسی قیادت تب بھی خاموشی پر اکتفا کیا۔ پھر سوشل میڈیا میں چترال سے صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے کو ختم کرنے کی خبر نشر ہوئی پھر بھی نام نہاد قائد یں کو کانوں کان خبر نہ ہوئی بلکہ ایک دوسرے پر الزامات لگاتے رہے ، پھر ملک بھر میں انتخابی حلقہ بندیاں شروع ہوئی ۔چترال کے سیاسی قائدین کی پشاور میں بیٹھک ہوئی لیکن اس مرتبہ بھی کوئی عملی قدم نہیں اٹھایاگیا ۔ اس کے بعد کئی مرتبہ نشست وبرخاست کا سلسلہ جاری رہا جب انتخابی حلقہ بندیوں پر اعتراضات جمع کرانے کا اعلان ہوا تو ایم پی اے ہاسٹل پشاور میں میٹنگ ہوئی اور 14مارچ تک الیکشن کمیشن میں کیس دائر کرنے کا فیصلہ کیا لیکن 14مارچ کے بجائے 3اپریل کویعنی درخواستیں جمع کرانے کے آخری روز کیس دائر کیاگیا جس کا فیصلہ 7اپریل 2018ء کو حسب توقع چترال کے خلاف آیا ۔ پشاور میں منعقدہ اس میٹنگ میں یہ بھی فیصلہ ہوا تھا کہ اگر الیکشن کمیشن نے ہماری بات نہیں مانی تو مشترکہ طور پر ساری سیاسی جماعتیں الیکشن کا بائیکاٹ کریں گے ۔ البتہ فیصلہ آنے کے بعد سارے سیاست دان ایک دوسرے کو کو س رہے ہیں ۔ اگر مردم شماری کے عبوری نتائج کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیاجاتا تو بہت ممکن ہے دوبارہ مردم شماری کی جاتی اور نتیجہ مختلف برآمد ہوتا۔کیا ہمارے سیاسی قائدین بائیکاٹ کے اپنے فیصلے پر ہی کابند رہتے ہیں ۔۔؟

Print Friendly, PDF & Email