شورش مستوج کے ایک سوا یک سال (دوسری قسط)

پہلی قسط میں انیسویں صدی کے آخری اور بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں ہندوکش وہندوراج کے پہاڑی خطوں میں آنے والی سیاسی وسماجی تبدیلیوں پر مختصراً روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی تھیں۔ 1895ء سے 1910ء تک اپر چترال کا خطہ یعنی مستوج کو ریاست چترال کی عمل داری سے باہر رکھا گیا جبکہ شندور پار (جسے کہوار لوک روایات میں انا پھاری ) ریاست کے حصے کو مکمل طور پر علیحدہ ہی رکھا گیا۔ مہتر شجاع الملک نے ہوش سنبھالنے کے بعد ریاست کے بخرے شدہ حصے یعنی مستوج اور غذر وورشگوم (یاسین) تاپونیال تک کے علاقے ریاست کے حوالہ کرنے کی کوشش شروع کر دی۔بالآخر 1910ء میں مستوج کا دوبارہ سے ریاست چترال کے ساتھ انضمام ہو گیا اور غذر وورشگوم (یاسین ) بدستور علیحدہ ہی رکھے گئے۔ مستوج کے اس انضمام کے ساتھ ہی خطہ میں بے چینی کے آثار نمایاں ہونا شروع ہوئے۔ مورخین کا کہنا ہے کہ مستوج کا چترال کے ساتھ انضمام کے بعدمہتر چترال کی طرف سے عوام پر ناجائز ٹیکسوں(عشر) کا بوجھ ڈال دیاگیا یوں غربت وافلاس میں پسے ہوئے لوگ مزید معاشی بدحالی کا شکار ہوگئے اور آنے والے برسوں میں علاقہ میں پھیلی ہوئی بے چینی شورش کی شکل اختیار کرلی جو بالآخر 1917ء میں بغاوت مستوج کی صورت میں سامنے آیا۔نامور محقق ومصنف پروفیسر رحمت کریم بیگ اپنی کتاب ‘چترال !اے اسٹیڈی ان اسٹیٹ کرفٹ’ میں اس ساری صورتحال پر یوں روشنی ڈالتے ہیں ‘شجاع الملک سے پہلے اسماعیلیوں کو ریاست کی جانب سے کسی قسم کی انصافی اور زیادتی کا نشانہ نہیں بنایا جاتا تھا۔تاہم شجاع الملک نے ریاست کے مذہبی رواداری کی روایتی پالیسیوں کا خاتمہ کردیا۔ شجاع الملک اورا ن کے اسماعیلی رعایا کے درمیان اس وقت کشیدگی پیدا ہوگئی جب انہوں (اسماعیلیوں ) نے حکمرانوں کے عائد کردہ عشر نامی ٹیکسز کی مخالفت شروع کردی۔1917 میں ضلع مستوج میں عشر مخالف تحریک کو ریاست نے طاقت کے زور سے کچل ڈالا۔ یہ مذاحمت بالکل غیر یقینی تھی کیونکہ برسوں سے اسماعیلی رعایا مہتر کے وفادار کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتے تھے۔ حکمرانوں نے اس مذاحمت میں شامل عناصر کے خلاف کریک ڈاون شروع کردی اور تحریک کے سربراہ بلبل شاہ کو شمالی افغانستان میں جلاوطن کردیاگیا۔ مستوج سے تعلق رکھنے والا بلبل شاہ علاقے کے قابل احترام سادات خاندان سے اور مذہبی رہنما تھے۔ ان کی جلاوطنی نے اسماعیلیوں کو یہ باور کرادیا کہ ریاست ان کے خلاف شدید دشمنی اور مخاصمت کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ یہ تحریک پورے چترال کے اسماعیلیوں تک پھیل گیا جس نے شدید سول افراتفری کو جنم دیا۔ 1917ء کے شورش کے بعد اسماعیلی قائدین نے اپنی کمیونٹی کے معاملات اپنے ہاتھوں میں لے لیا جب کمیونٹی میں کسی قسم کا مسئلہ درپیش ہوتا تو اسماعیلی رہنماوں نے ریاست کو ملوث کئے بنا ان مسائل کو حل کرنا شروع کیا جو کہ مہتر (حکمران چترال) کے لیے درد سر بنا رہا۔” یہ تحریک چونکہ ناکافی منصوبہ بندی نیز تنظیمی ساخت کے فقدان کی وجہ سے ناکامی سے دوچار ہوگیا۔ بلبل شاہ کو خاندان سمیت بدخشان جلاوطن کردیا گیا جہاں سے وہ ہنزہ آکر رہائش اختیار کر لی اور وہیں وفات پاگئے۔ پیر بلبل شاہ اور ان کے شروع کردہ بغاوت کو جہاں حکمرانوں کے خلاف آزادی کی تحریک سے تعبیر کیا جاتا ہے وہیں بعض اسماعیلی محقیقین کا خیال ہے کہ شاید بلبل شاہ مہتر شجاع الملک کے عائد کردہ ٹیکسز کے خلاف احتجا ج کرکے خود مستوج کے تخت پر متمکن ہوناچاہتے تھے یا شاید خوشوخت خاندان (جو کہ امان الملک کی اقتدار سے قبل مستوج اور غذر وورشگوم (یاسین ) پر حکومت کرتے تھے ) کو مستوج پر دوبارہ قبضہ کے لیے راہ ہموار کررہے تھے۔ یاد رہے پیر بلبل شاہ کے خوشوخت فیملی کے ساتھ قریبی مراسم تھے جنہوں نے بلبل شاہ کو استعمال کرکے مستوج سے کٹور خاندان کی عمل داری کے خاتمہ اور خوشوخت حکمرانی کے دوبارہ احیاء کی کوشش کررہے تھے۔ ان محقیقین کے مطابق بلبل شاہ کے ان سیاسی عزائم نے آنے والے وقتوں میں چترال کے اسماعیلیوں کے لیے شدید مشکلات پیدا کردی حکمرانان چترال مسلسل ان سے شاکی رہے اور دو مرتبہ مہتران چترال نے اسماعیلیوں کو بزور طاقت مذہب تبدیل کروانے کے لیے منظم تحریک چلائی۔ ان میں ایک تحریک 1917ء کے بغاوت کے فوری بعد شروع ہوئی جو 1925ء تک جاری رہی ۔ دوسری تحریک 1936ء میں چلائی گئی۔ ان تحاریک کا اسماعیلیوں پر کیا اثرات مرتب ہوئے۔ وہ اگلی قسط میں ملاحظہ فرمائیں۔

Print Friendly, PDF & Email