کیا یہ محض سیاسی لولی پاپ تو نہیں؟

خد ا خدا کرکے 32ماہ بعد اپر چترال کے مختلف علاقوں میں بجلی کی فراہمی ممکن ہوئی اور اْمید ہے کہ اگلے ایک دو دن کے دوران ریشن پاور ہاؤس کے سارے 21ہزار صارفین کو پھر سے روشنی نصیب ہوگی۔ لیکن کیا یہ طویل المدت حل ہے یا پھر وقتی طور پر گولین گول بجلی گھر کے افتتاح تک عوامی غصہ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے رچایا گیا ایک ڈرامہ ؟ ان سوالوں کا جواب جاننے کے لیے ہمارے پاس گزشتہ دونوں سوشل میڈیا پر نشر ہونے والے دو ویڈیو بیانات ہے جو بجلی ملنے کی امیدوں پر پانی پھیررہے ہیں۔ سوشل میڈیا ئی دانشوروں کی جانب سے کریڈٹ لینے اور اظہار تشکر کے نوافل کی ادائیگیوں کے دوران ان بیانات کوغور سے سننے کی توفیق نہ ہوئی۔پہلابیان ایم این اے چترال جناب افتخارالدین صاحب کا ہے جو یوسی کوہ میں عوام سے خطاب میں قسم کھاتے ہوئے کہا کہ ابھی تک پیڈو اور پیسکو کے درمیان کوئی معاہدہ نہیں ہوا اور ریشن پاور ہاوس صارفین کو بجلی سے محروم رکھنے میں صوبائی حکومت اور محکمہ پیڈو کا کلیدی کردار ہے کیونکہ ابھی تک پیڈو نے پیسکو سے بجلی خرید کر اپنے صارفین کو فراہم کرنے کے لیے تحریری درخواست نہیں دی۔ پھر اگلے لمحے اعلان کیا کہ صرف دو دنوں کے اندر اندر ریشن پاور ہاوس صارفین کو بجلی فراہم کی جائے گی۔ اس کے بعدسابق ایم این اے چترال مولانا عبدالاکبر چترالی کا بیان سامنے آیا جس میں موصوف نے انکشاف کیا کہ وزیر اعلیٰ کے پی محکمہ پیڈو کو ایک مہرہ بناکے اپر چترال اور کوہ کو گولین گول بجلی گھر سے محروم رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ محکمہ پیڈو نے پیسکو سے بجلی حاصل کرنے کے لیے ابھی تک درخواست نہیں دی۔انہوں نے یہاں تک کہا کہ وزیر اعظم کے حالیہ دورہ چترال اور گولین گول پروجیکٹ کے افتتاح کے موقع پر پیش آنے والی عوامی ردعمل کو ٹھنڈا کرنے کے لیے پیڈو کے ٹرانزمیشن لائینوں کو استعمال کرکے چند دنوں کے لیے وہاں بجلی چھوڑا گیا اور جب وزیر اعظم افتتاح کرکے واپس آئیں گے تو پیسکو پیڈو معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے ریشن پاور ہاوس صارفین کو بجلی کی فراہمی بند کردی جائے گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پیڈو اور پیسکو کے درمیان تحریری معاہدے کے بنا ریشن پاور ہاوس صارفین کو بجلی ملنے کا کوئی امکان نہیں تو پھر علاقہ کوہ اور اپر چترال کے لیے گولین گول پاور ہاوس سے بجلی کی حالیہ فراہمی کہیں سیاسی لولی پاپ تو نہیں اور کہیں وزیر اعظم کے دورے کے بعد علاقہ پھر سے اندھیرے میں ڈوب تو نہیں جائے گا؟

Print Friendly, PDF & Email