چترال سے صوبائی اسمبلی کی سیٹ کے خاتمہ کا معمہ

حالیہ متنازعہ مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیوں کا بل بھی پارلیمان (قومی اسمبلی اور سینٹ ) سے متفقہ طورپرمنظور ہوا ہے ۔ ا س بل کی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان بڑی تیزی سے انتخابی حلقہ بندیوں میں مصروف ہے  اور 15جنوری سے باقاعدہ حلقہ بندیوں پر کام شروع ہوگا گو کہ مردم شماری کے نتائج کا سرکاری طور پر اعلان نہیں ہوا جو کہ اپر یل 2018ء تک متوقع ہے لیکن غیر سرکاری رپورٹوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انتخابی حلقہ بندیوں کا فیصلہ کیا گیا۔نئے قانون کے مطابق ساڑھے 7لاکھ کی آبادی کے لیے قومی کی ایک نشست مختص کی گئی ہے جبکہ اسی  فارمولہ کے مطابق 308316آبادی صوبائی اسمبلی کا ایک حلقہ ہوگاجبکہ دو نشستوں کے لیے آبادی کاتناسب 6لاکھ 16 ہزار 6 سو 32 ہونا ضروری ہے ۔ چترال کی آبادی چارلاکھ سنتالیس ہزار تین سو باون نفوس پر مشتمل ہے ۔ آبادی میں ایک لاکھ 69ہزار 2سو80افراد کے اضافہ کے بعد ہی چترال کوصوبائی اسمبلی میں دو نشستیں مل سکتی ہے۔ جب سے چترال میں صوبائی اسمبلی کی ایک نشست کے خاتمہ کی خبر آئی ہے تب سے فیس بکی دانشوروں کی جانب سے سوشل میڈیا پر الزامات در الزامات کی بارش شروع ہوئی ہے۔ مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بعض کارکن اس کا ساراالزام پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت پر ڈال کر انہیں آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں ۔مسلم لیگ ن کے کارکنوں نے تو باقاعدہ پاکستان تحریک انصاف کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے ۔ ان حالات میں پی ٹی آئی کے ٹائیگر کہاں خاموش رہنے والے ہیں فور ا جوابی وار کرتے ہوئے اس کا الزام مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی پہ عائد کیا۔بنیادی سوال یہ ہے کہ چترال سے صوبائی اسمبلی کی ایک نشست کو ختم کرنے میں کس کا ہاتھ ہے ؟ وہ کیا وجوہات تھی جس کی بنا پر چترالیوں کو صوبائی اسمبلی کی ایک نشست سے ہاتھ دھونا پڑا؟ اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا اس نئے قانون کا اطلاق صرف صوبائی اسمبلی کی نشست پر ہی ہوگی؟ کیا قومی اسمبلی کی نشست کے لیےآبادی کی مطلوبہ تعداد نہ ہونے سے اس حلقہ پرکیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں ؟ موجودہ حکومت نے اپوزیشن جماعتوں سے مل کر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے نئی حلقہ بندیوں کا بل منظور کیا اور الیکشن کمیشن کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ مردم شماری کے عبوری نتائج کے مطابق نئی حلقہ بندیاں کردیں جس کا آغاز 15جنوری 2018ء سے ہوگی۔حالانکہ آئین پاکستان کے مطابق انتخابی حلقہ بندیاں مردم شماری کے مکمل سرکاری نتائج کے بعد ہی ہونی چاہئے لیکن اس بار چونکہ انتخابات سر پر ہے اس لیے پارلیمان نے ایک وقت کے لئے الیکشن کمیشن کو مردم شماری کے عبوری نتائج کے مطابق حلقہ بندیوں کی منظوری دی ہے ۔ یہاں میں سابق کمیشنر محترم سلطان وزیر صاحب کا ایک کمنٹ نقل کرنا چاہونگا۔ان کے مطابق”حلقہ بندیوں کے حوالے سے قانون کے ایکٹ 1974ء کے سیکشن آٹھ ، نو اور دس بی کے مطابق اسمبلی کی کسی بھی نشست کے لیےحلقہ بندی آبادی میں برابری کی بنیاد پہ ہو گی ، حلقہ بندی آبادی ، جغرافیہ ،اضلاع کے موجودہ سرحدات اور کمیونیکیشن کی سہولیات پر منحصر ہوتی ہے ، ان حلقہ بندیوں کو کسی بھی کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا تاہم صدر مملکت ناگزیر وجوہ کی بنا پر نئے حلقہ بندی کے فیصلے کو مسترد کرسکتے ہیں ۔اس قانون کے مطابق صوبائی اسمبلی کے لیےاپر دیر اور لوئر چترال کو ملاکر ایک حلقہ بنایا جائے گا”۔ اسی طرح اپر چترال اور لوئر چترال کے بعض حصوں کو ملا کر صوبائی اسمبلی کا ایک حلقہ قرار دیاجائے گا۔ نئی حلقہ بندیوں کے اس قانون کا اطلاق صرف صوبائی اسمبلی کے حلقوں پر ہی عائد نہیں ہوگی بلکہ قومی اسمبلی کی ایک نشست بھی متاثر ہوسکتی ہے ۔ چونکہ چترال کی کل آبادی چارلاکھ سنتالیس ہزار سے کچھ زیادہ ہے جبکہ قومی اسمبلی کی ایک نشست کے لیے ساڑھے سات لاکھ کی آبادی درکار ہے۔ لگتا یوں ہے کہ اس قانون کے مطابق نئی حلقہ بندیوں میں اپر دیر کے جس حصہ کو لوئر چترال کے ساتھ ملا کر صوبائی اسمبلی کا حلقہ ڈیکلئیر کیا جائے گا قومی اسمبلی کا حلقہ بھی وہیں سے شروع ہوگا ۔ یعنی قومی اسمبلی کے ایک امیدوار کو نہ صرف پورے چترال بلکہ دیر تک جاکر انتخابی مہم چلانا پڑے گا ۔ یہ فیصلہ نہ تو وفاقی حکومت کا اور نہ صوبائی حکومت کا ہے، بلکہ یہ انتخابی حلقہ بندیوں کے ترمیمی بل کے سینٹ اور قومی اسمبلی سے منظور ہونے کے بعد خود بخود لاگو ہوگیا ۔

Print Friendly, PDF & Email