چترال، کھو اور چترالی

پاکستان کے انتہائی شمال میں واقع صوبہ نما ضلع چترال کا کل رقبہ ساڑھے چودہ ہزار مربع کلومیٹر ہے”کھو” یہاں کی سب سے بڑی لسانی نسل ہے جس کی زبان "کھوار”کہلاتی ہے اس زبان کو باہر کے علاقوں میں "چترالی” کے نام سے بھی  جانا جاتاہے حالانکہ چترالی نہ تو کسی مخصوص قومیت کا نام ہے اور نہ کسی زبان وادب کا۔ چترال میں کم وبیش چودہ سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں اگر ان سب کو ملا کر چترالی کہاجائے تو شائد کسی حد تک درست ہوگی لیکن یہاں کسی مخصوص زبان کو چترالی کا نام دینا مناسب نہیں ۔ کیونکہ اگر کھوار ہی کو چترالی کا نام دیا جائے تو باقی ماندہ تیرہ زبانیں کیا چترالی زبانیں نہیں ؟اس کے علاوہ کھوار زبان صرف چترال کی حد تک محدود نہیں بلکہ گلگت بلتستان کی بھی بڑی زبانوں میں سے ایک ہے جو کہ ضلع غذر، یاسین اور گلگت خاص میں بولی جاتی ہے بحیثیت مجموعی "کھوار زبان”چترال اور گلگت بلتستان میں مشترکہ طورپر بولی جانے والی سب سے بڑی زبان ہے ۔

کھوار نہ صرف ایک زبان ہے بلکہ ایک ثقافت بھی ہے ۔ کھوثقافت کی تاریخ انتہائی پرانی ہے غیر مصدقہ زبانی روایات کے مطابق اس زبان وثقافت کی ابتداء موجودہ موڑکھو سے ہوئی موڑکھو اور تورکھو میں اس زبان کی آبیاری ہوئی جبکہ رفتہ رفتہ مستوج سے ہوتاہوا مہاجرین کے ذریعے پورے چترال اور گلگت بلتستان تک پھیل گیا ۔البتہ ان مفروضوں سے متعلق کوئی متفق علیہمواد موجود نہیں۔ اس زبان وادب پر فارسی کے اثرات بھی نمایاں ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ پوراخطہ چترال اور گلگت بلتستان زمانہ قدیم سے فارسی تہذیب کے زیر سایہ رہا۔ دور جدید تک تو ریاست چترال ، ریاست غذر و یاسین ، گلگت وہنزہ کی سرکاری زبان فارسی تھی اور اکثر علمی مواد اب بھی فارسی زبان میں موجود ہے ۔ کھوار ثقافت نے کئی ایک صاحب دیوان فارسی شعراء ومصنفین پیداکیے جن میں فارسی اورکھوارزبان کے نابغہ روزگار شاعر مرزا محمد سیر (باباسیر) ،چترال میں تاریخ نویسی کا ایک اہم نام "تاریخ چترال "(فارسی ) کے مصنف مرزامحمد غفران قابل ذکرہے جو اس علاقے کی ذرخیز ادبی ورثے کی نمائندگی کرتی ہے البتہ چترال کا پاکستان سے الحاق کے بعد اس خطے سے فارسی کا عمل دخل ختم ہوگیا  ۔جس کی وجہ سے نئی نسل کو نہ صرف اپنی قدیم ادبی ذخیرے سے محروم ہونا پڑا بلکہ رفتہ رفتہ علاقے کاقدیم ثقافتی ورثہ بھی ختم ہو گیا ۔ تاریخ چترال کے مطالعے سے پتہ چلتاہے کہ مہتران چترال کے دور میں ہر سال عظیم فارسی تہوار’ نوروز‘پوری ریاست چترال میں جوش وخروش سے منایا جاتاتھا اس دن پولو کے میچ کا انتظام ہوتا اور مہتر چترال خود پولو گراؤنڈ میں جاکر میچ کھیلتے یا پولو کے میچ سے لطف اندوز ہوتے تھے شام کو روایتی کھانے تیارکیے جاتے اور مشیران کا اجلاس بلاتے تھے ۔جسے کھوار زبان میں "مہرکہ "کہاجاتاہے ۔کھانے کے بعد محفل موسیقی منعقد ہوتی ۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہاں کے لوگ نے مادیت پرستی کا اسیر ہوکر اس تہوار کوخیر باد کہا اور اب حالت یہ ہے کہ چترال کے انتہائی دور دراز وادیوں میں مقیم اسماعیلی مکتبہ فکر کے افراد نوروز کا تہوار مناتے ہیں ان میں بھی وہ جوش وخروش نظر نہیں آتا جو کسی وقت اس جشن کا خاصہ ہواکرتاتھا ۔ یوں چترالی قوم مادیت پرستی اور کسی حدتک مذہبی منافرت کا شکار ہوکر اپنے آباؤ واجداد سے ترکے میں ملے ہوئے عظیم ثقافتی ورثے سے خود کو محروم کردیا ۔ موسیقی اور چترالی قوم کا چولی دامن کا ساتھ ہے ، جب بھی موسیقی کے سروں کی آواز گونجتی ہے، یہاں کے لوگ اپنی ساری مصروفیات ترک کرتے ہوئے اس آواز کی جانب لپکتے ہیں، ہمارے آباؤواجداد کا میراث تھا کہ موسیقی کے ہر ساز کے لیے مخصوص ماہر افراد رقص کرتے اور باقی لوگ تالیاں بجا کر اس محفل کو مزیدپر لطف بناتے ، ہر ناچنے والے کو اپنے فن کے مظاہرے کا موقع ملتا یوں چترالی موسیقی کے ساتھ رقص کرنے والے اپنی جسم کو ایسے حرکت دیتے کہ دیکھنے والا اس فن کی داد دئیے بنا نہیں رہ سکتے ۔ ماہر رقاص کے لیے ضروری ہے کہ وہ موسیقی کی آواز کے ساتھ اپنی جسم کے اعضاء کو ایک مخصوص انداز سے جنبش دیں،ماہریں  اس عمل کو جسمانی شاعری سے تشبیہہ دیتے ہیں۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی نسل پروان چڑھی جو بظاہر تو تعلیم یافتہ اور اعلیٰ ڈگری ہولڈر ہے لیکن تعلیم کے ساتھ ایک اور لفظ تربیت بھی شامل ہوتاہے یعنی ’’تعلیم وتربیت‘‘۔ ہمارے معاشرے میں نوجوانوں کی کثیر تعداد تعلیم یافتہ ضرور ہے تربیت کا فقدان ہے ۔ علاقے میں نسل و نسب پرستی اپنے عروج پر ہے یوں نوجوان نسبی گروہوں میں بٹ کر ایک دوسرے کی ذات کو بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں اس گروہ بندی کا اثر ہماری موسیقی وثقافت پر بھی تباہ کن اندا ز سے مرتب ہوا۔ جب بھی کہیں محفل موسیقی منعقد ہوتی ہے تو سوز وساز کو سمجھے بنا ہی ہر گروہ میدان میں اترتے ہیں اور اگر اس دوران کسی دوسرے قبیلے کا کوئی بندہ رقص کرنا چاہے تو سارا ماحول میدان جنگ میں تبدیل ہوتا ہے ہرشخص کا ہاتھ دوسرے کے گریبان تک اور یوں کبھی ہمارے ماہر رقاص سروں کے ساتھ اپنی خداداد صلاحیتیوں کا لوہا منواتے تھے اب نسل پرستی جیسے ناسور کی آڑ میں موسیقی کی تھاپ میں ایک دوسرے کو مارتے پیٹتے ہیں۔ بعض موقع پرست سیاست دانوں نے اس نسب پرستی کی بنیاد رکھی جو دھیرے دھیرے انتہا پسندی کی جانب گامزن ہے اور بہت ممکن ہے کہ یہ عمل شدت پسندی اور پھر دہشت گردی میں تبدیل ہوجائے ۔ یعنی موقع پرست سیاسی مافیاز کی وجہ سے ہماری تمدن وثقافت اب اپنی موت آپ مر رہی ہے لیکن آفسوس ناک امر یہ ہے کہ نہ تو سیاسی قیادت اس کو روکنے کے لیے تیار ہے اور نہ ہی دانشوروں کی جانب سے اس ناسور کے سامنے بند باندھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش ہورہی ہے حد تو یہ ہے کہ بعض دانشور نسب پرستی کی اس بیماری کو فروع دینے میں مصروف ہے ۔

(جاری ہے)

چترالیات کے لیے کریم اللہ صاحب  کا مضمون

آپ فکر فردا کے نام سے پاکستان اور چترال کے مختلف پرنٹ اور آن لائن اخبارات کے لیے کالم،مضمون اور بلاگز  لکھتے ہیں۔جنہیں قاریئں پسندیدیگی کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔آپ پشاور یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر کرنے بعد مختلف اخبارات کے ساتھ فری لارنس جرنلسٹ کے وابستہ ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے