چترال میں شادی بیاہ کی رسم

چترال میں شادی بیاہ کے رسوم بھی قدیم وسطی ایشیا کی تہذیب و تمدن کے منفرد نمونے ہیں۔ شادی بیاہ کے مواقع پر دعوتیں، خوشیاں، ناچ ،گانے اور رقص دسرود تو ہر جگہ ہوتے ہیں۔ مگر چترال میں ان روایتی رسوم کے اپنے الگ الگ طور طریقے ہیں۔ ہر رسم کے ساتھ الگ الگ روایات وابستہ ہیں۔ شادی کے سلسلے میں سب سے پہلی رسم منگنی ہے۔ جسے "ویچھیک” کہتے ہیں اور جب منگنی ہوجائے تو اس رسم کو رسمِ”اللہ اکبر” کہا جاتا ہے۔منگنی کا ابتدائی معاہدہ نامِ خدا کے ساتھ ہوتا ہے۔ اسی مناسبت سے یہ رسم بھی اللہ اکبر کہلاتی ہے۔

 

منگنی کے لیے بیٹے کا باپ اپنے گاؤں کے معززین کا جرگہ ساتھ لیتا ہے۔ اس سے پہلے اندرونی سطح پر بات طے ہوچکی ہوتی ہےاس لیے بیٹی کے ماں باپ مقررہ دن مہمانوں کے لیے بندوبست کرتے ہیں۔اس موقع پر دودھ کا مکھن ، دودھ کی پنیر ، یا اس کا کھیر بنایا جاتا ہے۔ جسے "اشپیری” یعنی منہ میٹھا کرنا کہتے ہیں۔ اشپیری کا دودھ سے تیار کرنا نیک شگون سے ہے۔ مہمانوں کے لیے گوشت ،گھی کا دوسرا کھانا بھی تیار کیا جاتا ہے۔ منگنی کی رسم طے ہوجائے تو لڑکےکا باپ  اپنے نئے رشتہ داروں کا شکریہ ادا کرتا ہے۔ اور  ازراہ خیر سگالی کچھ تحفے وغیرہ گھر میں دیدیتا ہے۔ جس میں حسب استطاعت کپڑے کا جوڑا یا جنسی  یا نقدی کی صورت میں کوئی اور تحفہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد دونوں کی صوابدید پر ہوتا ہے کہ رخصتی کا وقت کیسے اور کب طے ہو۔ اگر جلدی طے ہونا ہے تو منگی کے موقع پر بیٹی کے والدین اپنی ضروریات سے نئے رشتہ دار کو آگاہ کرتے ہیں۔

لڑکے والے یہ ضروریات نقدی ،بیل، گھوڑے یا بندوق کی صورت میں  پوری کرتے ہیں جو آپس میں محبت بڑھانے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اس مال کے بدلے لڑکی والے گائے، برتن، بستر، جوڑے وغیرہ دیدیتے ہیں۔بستر میں "تخت” ایک بڑی کمبل ہوتی ہے جو گائے کی قیمت پر بک جاتی ہے۔ اور "جوڑا” دلہن کے لیے خاص طور پر ریشمی کڑھائی سے تیار کردہ ،سربند گریبان اور آستینوں کے ساتھ ٹوپی اور پترس پر مشتمل ہوتا ہے۔ تبادلہ مال میں لڑکے والے کے بیل کے عوض دو گائے یا ایک گائے ایک تخت یا بستر یا ایک گائے کے ساتھ جوڑا لڑکی والوں کی طرف سے دیا جاتا ہے۔جرگہ میں تین مطالبات لازمی ہوتے ہیں۔”چادور”کے نام پر ایک بیل باپ کو ملتا ہے۔”اوسیل” کے نام ایک گھوڑا ، بیل یا بندوق بھائی یا باپ یا چچا کو ملتا ہے۔ اور  "ملک باڥو” کے نام پر ایک بیل ماموں کو ملتا ہے۔ باپ اور بھائی "چادور”اور "اوسیل” کے عوض دو دو گائے یا ایک  گائے یا ایک گائے کے ساتھ تخت بستر، ایک دیگ  وغیرہ دیدیتے ہیں جبکہ ماموں اپنے حصے کے لیے صرف ایک آدھ عوضانہ دیدیتا ہے، یعنی صرف ایک گائے یا ایک بستر، اسی طرح تبادلہ مال سے محبت بڑھتی ہے اور کسی پر بھی غیر ضروری بوجھ نہیں ہوتا۔ جرگہ کے لازمی مطالبات کے علاوہ حسب ضرورت اور حسب موقع رشتہ دار ایک دوسرے کیساتھ تبادلہ مال کا تعاون کرتے رہتے ہیں۔ نئی تہذیب کی یلغار نے لالچ کے دروازے کھول دئیے ۔ تو رشتہ داروں میں تبادلۂ ما ل کے ناجائز مطالبات پر رنجشیں بھی ہونے لگیں۔ اور اب ان کی جگہ  نقدی بھی آگئی ہے جو بیٹی کی رخصتی کے ہنگامی انتظامات کے لیے لڑکی والے وصول کرتے ہیں۔ مہر موجل کا تعین نکاح کے وقت کیا جاتا ہےاور باپ نے بیٹی کی رخصتی تک تبادلۂ  مال کے علاوہ جو کچھ لیا ہوتا ہے۔ وہ مہر موجل کے واجبات سے مہنا کی جاتی ہے۔ یہ رقم باپ اپنی بیٹی کو یا تو جنسی صورت میں ادا کر چکا ہوتا ہے یا رخصتی کے بعد ادا کرتا ہے۔ جہیز اس کے علاوہ ہوتا ہے۔ اس میں گائے، بھیڑ ، بکریاں، اور گھر کے سامان وغیرہ ہوتے ہیں اور روایتی طور پر جب صاحب اولاد ہوتی ہے تو ماں باپ اس کے گھر میں جہیز بھیجنے کا بندوبست کرتے ہیں۔

عام طور پر لڑکی میکے جا کر یہ جہیز اپنے ساتھ لاتی ہے۔ اور جہیز جتنا زیادہ ہو، ناک اتنی اونچی تصور کی جاتی ہے مگر اس کے لیے متعین مطالبات لڑکے والوں کی طرف سے نہیں ہوتے۔ عام طور پر بیٹی کی ضروریات میکے میں قبیلے اور قریبی اعزّہ کے تمام گھرانے مل کر پوری کرتے ہیں۔ اس طرح داماد پر بھی سسرال میں تمام اعزہ کی عزت اور سب کا احترام واجب ہوتا ہے۔ رخصتی کے وقت جب بارات لڑکی والوں کے ہاں پہنچتی ہے تو سب سے پہلے لڑکے والے "کائی بوٹی”دیتے ہیں۔ یہ دو تین فٹ کی چھڑی ہوتی ہے۔ بارات آتے وقت گاؤں کےبچے گاؤں سے باہر نکل کر بارات کا انتظار کرتے ہیں۔ باراتیوں میں سے ایک مخصوص شخص کے ہاتھ میں یہ چھڑی ہوتی ہے نزدیک آکر وہ چھڑی کو پھینک دیتا ہے۔ لڑکے اس پر جھپٹ پڑتے ہیں۔ اس چھڑی کو جو بھی لے لے ، اسے انعام دیا جاتا ہے۔ گھر میں داخل ہونے کے بعد رسمِ نکاح ادا ہوتی ہے۔ اس کے بعد مہمانوں  کی تواضع کی جاتی ہے۔ ناچ گانوں کی محفل بھی ہوتی ہے۔ گاؤں کے لوگ اور لڑکی والے کے اعزّہ واقربا، مہمانوں کو الگ الگ ضیافت دیتے ہیں اور مہمان ہر جگہ کچھ نہ کچھ تحفہ دیتے ہیں۔ یہ خیر سگالی کی نشانی ہوتی ہے۔ رخصتی کے وقت گھر میں خدمت انجام دینے والوں کو بھی باراتیوں کی طرف سے تحائف دئیے جاتے ہیں۔ رخصتی کی رسم”پائپاڥ”یعنی بڑے گھر سے شروع ہوتی ہے۔ جو ایک قسم کا دیوان خانہ ہوتا ہے۔ دلہن کے گھر درمیانی ستون کے قریب آکر دیسی حلوے کا آٹا تیار کرتی ہے اس میں پانی ، مٹھاس اور آٹا ڈال کر تیار رکھا جاتا ہے۔ دلہن رسمی طور پر چمچے کو آگ لگاتی ہے اور دو تین بار ہلاتی ہے۔ گھر کے آتشدان میں آگ جلایا جاتا ہے۔ اور باپ ، چچا، ماموں یا کوئی رشتہ داروں کے ہمراہ باہر نکلتی ہے۔ دولہا آخیر تک گھر کے اندر انتظار کرتا ہے۔

ساس بھی گھر میں بیٹھی ہوتی ہے۔ جب دلہن باہر نکل جاتی ہے تو دلہا ساس سے اجازت لے لیتا ہے۔ ساس اپنے داماد کو اس موقع پر تحفہ دے دیتی ہے جسے "برکت کورالی” کہتے ہیں۔اسی طرح داماد بھی ساس کی خدمت میں تحائف پیش کرتا ہے۔ رخصتی کے موقع پر”لیک ژور ” گایا جاتا ہے جو کہ اس موقع کے لیے خاص گیت ہے۔ ماں دلہن کے پیچھے گھر سے باہر نہیں نکلتی اور دوسرے دن تک گھر سے کوئی کالی چیز یا راکھ باہر نہیں نکالتے۔ کیونکہ یہ بد شگون سمجھتے ہیں۔ بارات دلہا کے گھر روانہ ہوتی ہےتو سب سے پہلے استقبال کرنے والے گاؤں سے باہر نکل کر باراتیوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ استقبال کے لیے گاؤں کے خواتین الگ جگہ جاکر بیٹھتی ہیں اور دلہن کا استقبال کرتی ہیں۔ جوان اور بچے دف ڈھول وغیرہ ناچتے ، گاتے، اور خوشی مناتے ہیں۔ ہوائی فائرنگ ہوتی رہتی ہے، اور نشانہ بازی کے مقابلے ہوتے ہیں جب بارات دلہا کے گھر پہنچتی ہے تو دلہن گھوڑے سے نیچے نہیں اترتی۔ اس وقت دلہا کا باپ اس کے نام پر زمین ، باغ، یا گھر کے کسی عطیے کا اعلان کرتا ہے جسے سب لوگ سنتے ہیں گھر کے دروازے پر آکر دلہن دروازے پر کھڑی رہتی ہے۔ اور جب تک ساس کی طرف سے کسی عطیے کا اعلان نہ ہو، دلہن گھر میں داخل نہیں ہوتی۔ جس طرح ماں دلہن کو رخصت کرنے کے لیے باہر نہیں نکلتی۔ اسی طرح ساس بھی دلہن کے استقبال کے لیے گھر سے باہر  قدم نہیں رکھتی ۔ کہا جاتا ہے کہ اگر ماں بیٹی کے پیچھے گھر سے باہر نکلے تو بیٹی اپنے گھر سے بھاگنے والی ہوگی۔ اور ساس دلہن کے استقبال کے لیے گھر سے باہر نکلے تو بہو گستاخ ہوگی(مگر سالہاسال سے یہ رواج ہوتے ہوئے بہو میکے بھاگنے والی بھی ہوتی رہی ہیں)گھر کے اندر پہلی تقریب”اشپیری” ہوتی ہے۔ پنیر اور مکھن سے سارے باراتیوں کی تواضع کی جاتی ہے۔ دلہا اور دلہن ایک ساتھ بیٹھتے ہیں۔ ان کے سامنے پنیر اور مکھن کی بڑی تھال رکھی جاتی ہے۔ دلہا اور دلہن میں سے جو بھی نوالہ اُٹھائے، اسے ساری زندگی کے لیے قوی سمجھا جاتا ہے۔”اشپیری”کے بعد باراتی کھیل ،ناچ اور نشانہ بازی وغیرہ میں مشغول ہوتے ہیں۔ گاؤں کے تمام لوگوں کے لیے اس وقت خصوصی ولیمہ کا بندوبست ہوتا ہے۔

رات بھی ناچ گانوں کی محفل میں کٹ جاتی ہے۔ اور صبح لوگ مبارک بادی کے لیے آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ گاؤں کی خواتین لذیذ لذیذ کھانے پکا کر ساتھ لاتے ہیں۔ اور تین دن سے لے کر ایک ہفتہ تک یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ شادی بیاہ کے رسم میں یہ بھی ہے کہ گاؤں کے لوگ دلہا کے والدین کو تحفے دیدیتے ہیں، اور دلہن کے گاؤں والے دلہن کو تحفے دیدیتے ہیں۔ اوّل الذّکر میں غلّہ ، گھی  وغیرہ ہوتے ہیں جسے پندار کہا جاتا ہے۔ موخر الذکر میں زیورات ، انگوٹھی ، جوڑے وغیرہ ہوتے ہیں جسے چی غیچی کہا جاتا ہے۔ دلہن  کے ہمراہ سرپرست کی حیثیت باپ ، چچا، بھائی یا جو بھی بات لے کر جائے اسے "دُوری بوغاک” یا ” بیندا نشاک” کہتے ہیں۔ اسی طرح دلہن کے ہمراہ بھی کوئی سرپرست آتا ہے۔ "بیندا نشاک”یا "نخہ نشاک” اور  دوری گیاک کو دوسرے یا تیسرے دن مناسب تحفے تحائف دے کر رخصت کیا جاتا ہے۔ دلہن کا سرپرست گھر روانہ ہونے سے پہلے دلہن کو گھر کے انتظامات حوالہ کرنے کی رسم ہوتی ہے جسے”ٹیکتو ریپھیک” کہتے ہیں۔ اس موقع پر قریب کے رشتہ داروں اور گاؤں کے خواتین کو بلایا جاتا ہے۔ کھانا تیار کیا  جاتا ہے۔ اور دلہن سے رسمی طور پر توّےپر روٹی پکانے کی بسمِ اللہ کرائی جاتی ہے۔ اس وقت دُلہن میٹھے آٹے کی چار پانچ روٹیاں بناتی ہے۔ توے پر روٹیاں گرم ہوجائیں تو دلہا میاں جو آتشدان کے روبرو بیٹھا ہوتا ہے۔ گوڥینی (روٹی پکاتے وقت گرم حصے کو الٹانے کے لیے لکڑی کا آلہ )لے کر روٹیوں کو باری باری اُلٹا تا ہے۔ یہ نہایت مشکل کام ہوتا ہے۔ اور دلہا بدحواسی میں نیم گرم روٹی توڑڈالے تو حاضرین اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ گویا دلہا دلہن کے حواس کو پرکھنے کے لیے یہ ایک قسم کا "اوپن چمپین شپ” ہوتا ہے۔ شادی کے موقع پر دلہا کے رشتہ دار دو ردور سے آتے ہیں۔ انھیں "ڷ اک دویو” کہا جاتا ہے۔ ڷ اک دویو اپنے ہمراہ تحفے لاتے ہیں۔ اور جاتے وقت دلہن کے سامان سے انہیں تحفے دئیے جاتے ہیں جگہ نزدیک ہو یا دلہن عمر میں چھوٹی ہو تو ایک ہفتہ یا دو ہفتے بعد دلہن کے میکے دکھایا جاتا ہےاسے غیچی نیزیک کہتے ہیں۔ جگہ دور ہو یا دلہن عمر میں بڑی ہو، تو دو تین مہینے بعد بھی یہ رسم  ہوسکتی ہے۔

البتہ دُلہا میاں لازمی طور پر شادی کے ایک ہفتے یا جگہ بہت دور ہونے کی صورت میں ایک مہینے کے اندر رسمی طور پر سسرال جاتا ہے۔ اس وقت بھی سرپرست اس کے ہمراہ ہوتا ہے۔ اور کچھ تحفے جن میں زیادہ کھانے کا سامان ہوتا ہے، ساتھ لے جاتے ہیں۔ اس رسم کو”اشپریشی پوشیک”کہا جاتا ہے۔ شادی بیاہ کے رسومات پہلے پہل نہایت خلوص ، سادگی اور بے تکلفی سے انجام پاتے تھے۔ زمانے کی رفتا ر کے ساتھ تکلّف اور ریاکاری آگئی ہے۔شادی کے موقع پر یا محلے کا مذہبی پیشوا، امام مسجد ، خلیفہ یا قاضی شروع سےآخر تک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ شادی کے دن اور تاریخ کے ساتھ آمد وروانگی اور مختلف رسومات کی آدائیگی کے اوقات کا تعین علم نجوم اور علم الساعات کی رو سے مذہبی پیشوا ہی کرتا ہے ہر رسم کے ساتھ دعا لازمی ہوتی ہے۔ دُلہا اور دُلہن کے گھر سے نکلتے اور گھر میں داخل ہوتے وقت دعا پڑھتا ہے ، نکاح پڑھاتا ہے اور مہر موجل کے مقرر کرنے میں فریقین کے مابین آزروئے شرع ودستور مصالحت و موافقت کرتا ہے۔ گو حالات بدلتے رہتے ہیں۔ اور اب مذہبی پیشوا کا مقام ترقی یافتہ معاشرے میں دیہاتی معاشرے جیسا نہیں رہا۔ تاہم دیہاتی معاشرے میں اب بھی مذہبی پیشوا  کا مقام اپنی جگہ برقرار ہے۔ شادی کے موقع دُلہا اور دُلہن گاؤں میں کسی کے گھر جائیں یا اپنے گھر وں میں رسمی طور پر داخل ہوتے وقت ان کے سریا کندھے پر دو انگلیوں کی مدد سے تھوڑا سا آٹا پھینکا جاتا ہے جسے”پھتک "کہتے ہیں۔ پھتک ایک قسم کی مبارک بادی ہوتی ہے او راسے نیک شگون بھی سمجھا جاتا ہے۔

انتخاب از :چترال ایک تعارف

Print Friendly, PDF & Email