تاریخ چترال کے بکھرے اوراق دوسری قسط

پروفیسر اسرار الدین صاحب کی کتاب "تاریخ چترال کے بکھرے اوراق ” کا چھٹا باب "درد یا پساچہ زبانیں "ہیں جس میں نامور ماہرلسانیا ت سرجارج گرئیر سن کی تحقیق سے استفادہ کیاگیا ہے اس باب میں چترال اور گلگت بلتستان میں بولی جانے والی زبانوں کے ماخذات نیز ان کے ایک دوسرے سے مشابہات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے ۔ خصوصیت سے کافرستان میں بولی جانے والی زبانوں ،کہواردرد گروپ یعنی شینا اور اس کے ذیلی بولیوں اور ان میں موجود قدیم  ادب اور بیرونی زبانوں کے اثرات پر مفصل گفتگو  کی گئی ہے ۔اس کے علاوہ پساچہ زبان ،درد تاریخ، درد اور رومن ،درد اور اشوکہ اور ان زبانوں کے پرانے ادب کوزیر بحث لایاگیا ہے ،یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ یہ تحقیق دراصل گریزسن کی انگریزی مضمون کا ترجمہ ہے ۔باب نمبر سات کا عنوان ’چترال کی زبانیں ( جارج مارگنسٹن کی رپورٹ ) ہے ۔اس مضمون میں کہوار،کلاشہ ،پالولہ، دامیٹری /دامیلی، گواربتی یا ارندوئی وار، گوجری، کاتی (بشگالی)، پشتو، فارسی،واخی ،یدغہ کی تاریخ اور ان کے اس خطے میں ظہور نیز ان کی مختلف علاقوں میں موجودگی بیان کی گئی ہے۔
آٹھواں باب بہ عنوان "برطانوی ہند کی پالیسی شمالی سرحدات کے بارے (1865-1895ء )” ہے جس میں گیری ایلڈر نامی ایک انگریز محقق کے انکشافات بیان کیے گئے ہیں ۔دیکھاجائے تو یہاں سے کتاب نئی اوردلچسپ موڑمیں داخل ہوتی ہے ۔اسی باب میں برطانوی ہند حکومت میں چترال کے حالات ،تبدیل ہوتے ہوئے بین الاقوامی مظاہرمیں ان   کی دفاعی اور تزویراتی اہمیت کا بیان ہے۔اس باب کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ زارِ روس کی توسیع پسندانہ اور جارحیت پر مبنی اقدامات کو کس طرح برطانوی ہند میں محسوس کیاجارہاتھااور چترال جیسے پہاڑی ریاست کس طرح بین الاقوامی شہرت اختیار کرچکاتھا۔اسی زمانے میں برطانوی ہند کے کئی جاسوس ،سیاح او ر جغرافیہ دانوں نے اس علاقے کے مختلف دروں کو دریافت کرنے کی مہمات شروع کی۔ علاوہ ازیں اس باب میں افغانستان ،چترال اور کشمیر کے حکمرانوں کی ایک دوسرے کی ٹانگین کھینچنے کے لیے وقتاََ فوقتاََ برپا ہونے والی شورشیں اور انگریزوں کی کئی برسوں تک چترال کے حوالے سے گومگو پر مبنی پالیسیوں کو بھی بیان کیا گیاہے ۔ کیونکہ اس دور میں برطانوی ہند کے بعض افسراں جلد ازجلد چترال کے لیے بذریعہ دیر سڑک تعمیر کرنے کےخواہش مند تھے تو ایک حلقہ اسے روس کے لیے ہندوستان پہنچنے کا آسان اور ہمورا را ستے سے تعبیر کرکے اس کی پرزور مخالفت کررہے تھے۔یہی کچھ 1979ء میں سویت یونین کے افغانستان چڑھائی کے بعد پاکستانی پالیسی سازوں نے بھی اختیار کیااور لواڑی ٹنل پر ذوالفقار علی بھٹو کے شروع کردہ کام کو بند کیاگیا۔اس کے پیچھے بھی دو عوامل کارفرما تھے ایک بھٹوصاحب کے شروع کردہ منصوبوں پر قدغن لگانا اور دوسرا یہ تصور کہ لواری ٹنل کھلنے کی صورت میں سویت یونین کے لیے  پاکستان تک رسائی  آسان ہوگا۔اس دور میں پاکستانی پالیسی سازوں کا خیال تھا کہ چاہے چترال سویت یونین کے قبضے میں بھی چلی جائے لیکن روس کی مزید پیش قدمی ناقابل برداشت ہے۔ پروفیسر اسرارالدین صاحب برطانوی ہند کی اس پالیسی کو’ روس فوبیا‘ کا نام دیتے ہیں جبکہ جدید دور میں پاکستانی حکمرانوں کے ماضی میں چترال سے متعلق پالیسیاں بھی ’سویت یونین فوبیا‘ کے زمرے میں آتی ہیں۔اسی باب میں ڈیورنڈ لائین معاہدہ ،1892ء میں چترال کے ہیبت ناک حکمران آمان الملک کی وفات کے بعدتخت شاہی کے لیے ان کے بھائی اور بیٹوں کے درمیان شروع ہونے والی خون ریزی جس میں صرف پانچ سالوں کے درمیان پانچ مہتران تخت شاہی پر قبضہ جمانے اور مخالفین کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتاردیئے گئے تھے کوبھی بیان کیاگیاہے۔یہ دور چترال کی تاریخ کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا جبکہ خانہ جنگی کے اختتام پر انگریزوں نے ریاست پر اپنی گرفت مضبوط کردی اور ریاست کے حصے بخرے کردئیے گئے۔اس کے علاوہ چترال ڈیبٹ پہلی مرتبہ برطانیہ کے علمی و دانشورانہ حلقوں اور پارلیمنٹ تک پہنچی جس نے برطانوی معاشرے میں ایک نئی ارتعاش کو جنم دیاجو کہ نئی تاریخ رقم کرنے میں ممد ومعاون ثابت ہوا۔باب نمبر 9کا عنوان’مہتر چترال (لارڈ کرزن کے تاثرات) ہے۔جس میں لارڈ کرزن کی وہ یادداشتیں شامل ہے جو 1894ء کے موسم خزاں میں وہ بروغیل کا درہ عبور کرکے چترال میں داخل ہونے کے بعد لکھاتھا۔ اس مضمون میں مصنف (کرزن) نے نہ صرف چترال کا جغرافیہ بیان کیا بلکہ رومانوی انداز اختیار کرتے ہوئے علاقے کے فطری حسن پر بھی سیر حاصل تبصرہ کیا ہے مثلاََلکھتے ہیں’’ شام کو جب چمکتی برف پوش چوٹیوں سے سورج کی روشنی گردا گرد پہاڑوں کی بکھری ہوئی چوٹیوں پر پڑتی اور پھر وادی کے نچلے حصوں میں خزاں کی وجہ سے سرخ رنگ اوڑھے ہوئے درختوں کو ترمزی رنگ بخشتی تو یہ منظر دیکھ کر میں یہ سوچنے پر مجبورہوتا کہ اس سے زیادہ دل خوش کن منظر میں نے شائد ہی کہیں دیکھاہوگا۔
مستوج سے اوپر بعض جگہوں میں دریا کی گذرگاہ نسبتاََ چوڑی ہوجاتی ہے جہاں پر بید ،سفیدہ ،جونیپر اور برج کے چھوٹے چھوٹے جنگل نظر آتے ہیں ۔مستوج سے نیچے دریا کی گذرگاہ تنگ ہوجاتی ہے اور بعض جگہوں میں دریا نہایت تنگ گھاٹی میں سے شور مچاتاہواگزرجاتاہے ۔‘‘ اسی طرح تریچ میر کے لیےپہاڑوں کے سردار کا لقب استعمال کرتے ہوئے اس کی تعریف میں یوں سماں باندھتے ہیں’’ یہ پہاڑوں کا شہنشاہ ہے جو تقریباََ25,500فٹ اونچا ہے جو ہرجگہ چترال کی سرزمین کے پس منظر کے طورپر نظروں کو فرحت بخشتاہے اس کی موجودگی کی دھاک مقامی باشندوں پر بہت اثر ڈالتا ہے ‘‘۔( تاریخ چترال کے بکھرے اوراق،ص 171)۔
چترال کی جغرافیائی اوردفاعی اہمیت کو یوں بیان کیاجاتاہے’’ میں اس چھوٹی سی سرحدی ریاست (چترال) کو دیکھنے کا بہت متمنی تھا کیونکہ اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے میرے نزدیک انڈین ایمپائر کی سرحدی دفاع کے حوالے سے اس کی بہت زیادہ اہمیت تھی اور مجھے یقین تھا کہ بند پہاڑوں کے درمیان اس چھید(شگاف) کو بندکرنا کتنا ضروری تھا جس میں اس وقت روس کہیں سے بھی اندرگھسنے کے لیے گذرگاہ کی تلاش میں تھی ‘‘( صفحہ 170)لارڈکرزن اپنے مضمون میں چترال کی جغرافیائی وتاریخی اہمیت ،یہاں کے باشندں ،طبقوں اور مہترآمان الملک کی شخصیت کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ  اس علاقے کے لوگوں کاوحشی پن اور حکمران کا  متکبرانہ انداز  یوں بیان کیا ہے ’’ اصولوں سے عاری، زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کے شوقین ،چال باز لیکن ذی فہم، متکبرانہ مزاج والا او رچالاک، جو ایسی ریاست اور ایسے وقت کے لیے واحد شخصیت تھے۔ اپنی آخری عمر میں جب وہ ستر سال پار کرگئے تو کمزوربھی ہوئے اور غیر موثر بھی۔لیکن چالیس سالوں کے دوران وہ ہندوکش کے علاقے میں ایک نمایاں راہنما رہے ۔اپنی زبردست ذاتی اور جسمانی طاقت کے بل بوتے پر ایک مشہور پولوکھلاڑی ہونے کے ساتھ ساتھ اور بڑھاپے کے باؤجود کئی بیویوں کے شوہر تھے اور تقریباََستر(70) بچوں کے باپ تھے‘‘( صفحہ 176)۔
’’کسی بھی معاملے میں اس نے اپنی عیاری کا شائد اس سے بہتر مظاہر ہ نہیں کیا جتنی ہوشیاری سے اس نے کشمیر کو اپنی التجاؤں کے ذریعے اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوا اس طرح برطانیہ عظمیٰ کے ساتھ پہلی دفعہ رابطہ کرکے اپنی ذاتی اور خاندانی جاہ طلبی کی شدید خواہش کے مقصد کوحاصل کرنے کے قابل ہوسکا‘‘( ص176)
’’کسی کے لیے بھی یہ جاننا مشکل تھا کہ اس کی روٹی کا کونسا حصہ مکھن لگایاہواہے اورجب کیپٹن بڈلف (جو انہی دنوں گلگت میں برٹش پولیٹیکل آفیسر تھا ) 1880ء میں پونیال کے شیر قلعہ میں پہلوان بہادر کے گھیرے میں آیا تو یہ (آمان الملک ) آگے بڑھ کر اس کی مدد کو پہنچا اور اپنے داماد کو شکست دے دی‘‘۔( ص177)
کتاب میں آمان الملک کا انگریزوں کے ساتھ کیاگیا معاہد ہ بھی انگریزی اور اردو ترجمہ کے ساتھ شامل ہے۔جو ان الفاظ میں ہے ’’میں انگریزوں کا نمک حلال ہوں اور دل وجان سے ان کی خدمت سرانجام دوں گااور اس طرح سے ان کاکوئی دشمن آنے کی کوشش کرے تو ان راستوں اور دروں کو اس وقت اپنی پوری قوت کے ساتھ کنٹرول رکھوں گا یہاں تک کہ ان کی طرف سے امداد نہ آجائے ‘‘( ص 178)۔اسی باب میں مہتر امان الملک کی وفات اور اس کے بعدتخت شاہی پر قبضے کے لیے مہتر کے بیٹوں اور بھائیوں کے درمیان جاری رسہ کشی اور اس کے نتیجے میں پیداہونے والی خون ریزی پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اس مضمون میں لارڈ کرزن صرف سیاسی معاملات ہی کو زیر بحث نہیں لاتے بلکہ علاقے کے سماجی او رلسانی وادبی معاملات کو بھی بیان کرتے ہیں مثلاََ آوی یا سنوغر کے مقام پر تیلی سیری ( لکڑی کی شاخون سے بنے ہوئے پل) کا منظر یوں کھینچتے ہیں۔’’ مستوج سے دودن کے بعد کیپٹن ینگ ہسبنڈ کے ہمراہ گھوڑوں پر ہم چترال روانہ ہوئے پہلے دریا کے دائین طرف چلے ایک میل نیچے رسی کے پل (Rope Bridge) کے ذریعے ہم نے دریا پارکیااورآگے بونی سے ایک میل اوپر جہاں دریاکی گھاٹی تنگ ہے رسی اور درخت کے ٹہنیوں سے بنے پل سے دریا پارکیا ایسے پل سے گزرنے کا یہ میراپہلا تجربہ تھایہ رسی کا پل ہرگزنہیں تھا بلکہ اس میں مکمل طورپر برج اور بید کی نازک شاخوں کو توڑ مروڑ کر مضبوط کیبل کی شکل دی گئی تھی ۔ اس میں سے تین کیبل کسی قدر ڈھیلے انداز میں ایک دوسرے سے جوڑے گئے تھے جو پاؤں رکھنے کے کام آتے ہیں۔جو سطحی طورپر دریا کی گھاٹی کے اوپر لٹک رہا ہوتاہے اس پل کی چوڑائی جو اس طرح مختلف رسی کے لڑوں سے بنا ہے چھ سے آٹھ تک ہوتی ہے اور لچکدار ٹہنیوں کی گانٹھ سے ان کو باندھاگیا تھا وہ کبھی بھی ٹوٹ جاتے ہیں ایسا بھی ہوتاہے کہ ایک کیبل اپنے ساتھ دوسرے کیبل کی بہ نسبت زیادہ خم کھائے ۔اس صورت میں مسافر کو اور زیادہ احتیاط کرناپڑتا ہے ان پر چلنے کی بھی خاص ترکیب ہے پاؤں کیسے رکھیں ؟ کہاں رکھیں اور کس طرح رکھیں؟ پل والی رسی سے تقریباََ دویا تین فٹ اوپر دواور کیبل اس کی متوازی ڈالے گئے ہیں تاکہ ان کو پکڑکے چلاجاسکے اگرچہ تمام سٹریکچر مضبوطی سے بنائی گئی ہے پھر بھی نازک لگتی ہے خاص طورپر جھولنے کی یہ خراب  "عادت ” نہایت قابل نفرت ہے بالخصوص ہوا میں جب یہ جھولنے لگتاہے تو انسان کا دل اندر سے اچھل کے باہر آنے لگتاہے ۔
(عجیب بات یہ ہے ) کہ مقامی لوگ ان پلوں کو پانچ کی تعداد میں ایک ساتھ بھی عبور کرتے ہیں کبھی کبھی دوسروں کواپنے اوپر اٹھا کے پار کرتے ہیں حالانکہ اگر پل ٹوٹ جائے جس کے کافی امکانات ہوسکتے ہیں تو یہ سب لوگ ایک ساتھ دریامیں عرق ہوسکتے ہیں ‘‘۔آگے لکھتے ہیں کہ’’ مستوج سے کوئی 8میل نیچے مجھے یاد آرہاہے کہ ایک ہموار میدان میں سے ہم گزر رہے تھے اتنے میں اچانک ایک جگہ ہم پہنچے تو نیچے دیکھا کہ ایک عظیم الشان کھائی ہمارے سامنے (منہ کھولے ) کھڑی ہے یہ ایک نالہ ہے جس کے کنارے عمودی طورپر کھڑے تھے یہ ( اس ہموار میدان ) کے درمیان ایک گہری کھاؤ کی طرح کٹانظر آرہاتھا۔جو 250فٹ گہراتھا اورنیچے دریا کے کنارے تک چلاگیاتھا اس کی تہہ میں تھوڑا ساپانی بھی بہہ رہاتھا اس کے کناروں کے ساتھ پیچ درپیچ پگڈنڈی ایک طرف سے نیچے جارہی تھی اور دوسری طرف سے اوپر آرہی تھی مجھے محسوس ہوا کہ یہ عجیب وغریب قدرتی مظہر تھا چھ ماہ بعد یہ چترالی اور انگریزوں کے درمیان اہم معرکے کا منظر پیش کرنے والا تھا یہ نصرگول کا نالہ تھا تیس اپریل اٹھارہ سوپچانوے کو چترالیوں کے ساتھ یہاں جنگ کاحوالہ دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کرنل کیلی نے ہنزہ اورپونیال لیویز کی مدد سے یہاں پر قبضہ کیاتھا‘‘(اسرارالدین ، تاریخ چترال کے بکھرے اوراق ، ص 185-86) ۔یہاں سے آگے کوراغ اورریشن میں جنگ کا خاکہ بھی پیش کیاگیا ہے اورچترال آمداور شاہی استقبال پر بھی سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ قلعہ چترال ،مہتر اور مشیروں کے ساتھ مزاکرات ،آمان الملک کی وفات کے بعدنظام الملک کا مہتر بننے اور یہاں کی نظام حکومت کے طورطریق بیان کئے گئے ہیں ۔
دسویں باب میں برطانوی حکام او رچترال کے حکمرانوں کے درمیان خط وکتابت فارسی اور ان کا تخصیص کے ساتھ اردوترجمہ ومفہوم بیان کیا ہے ۔ اس باب میں نو کے قریب خطوط شامل ہیں۔ بارہواں باب ’’قائد اعظم کے نام ہزہائی نس محمد مظفر الملک کے خطوط، قائداعظم کے نام شہزادہ اور بیگم مطاع الملک کے خطوط ‘‘کے عنوان سے ہیں۔ باب تیرہ کا عنوان’’چترال میں ذمہ دار حکومت کے قیام کی تیاریاں ‘‘ ہیں جس میں 1947ء کے بعد کی صورتحال کا مختصراََ جائزہ لیاگیاہے۔ چودہوں اورآخری باب ’حرف آخر‘‘کے عنوان سے ہیں جس میں کسی حد تک کتاب میں موجود عنوانات پر مختصراََ روشنی ڈالی گئی ہے ۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے