اپر چترال: دور تاریک کے تیس ماہ

17جولائی 2015ء کو جب چترال میں مون سون کی بارشیں داخل ہوئیں تو ان کے ساتھ ہی چار اعشاریہ دو میگاواٹ پیداواری صلاحیت کے حامل ریشن پاؤر ہاؤس نے کام کرنا چھوڑ دیا ،یوں 16ہزار صارفین بجلی جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہوگئیں۔ 24جولائی 2017ء کو ریشن کے آبی نالے میں شدید طغیانی آئی جس کے نتیجہ میں ریشن بجلی گھر کو جزوی نقصان پہنچا۔ دن ہفتوں ، ہفتے مہینوں اور مہینے سالوں میں بدل گئے لیکن 4اعشاریہ 2میگاواٹ کے اس پاؤر ہاؤس کی مرمت نہ ہوئی اورآج اپر چترال سمیت لوئر چترال کے سولہ ہزار سے زائد صارفین کو تاریکی میں زندگی گزارے30 ماہ کا عرصہ بیت گیا۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق چاراعشاریہ دو میگاواٹ کے اس بجلی گھر سے فی ماہ 45لاکھ روپے کی خطیر آمدنی حاصل ہورہی تھی لیکن گذشتہ تیس مہینوں سے علاقے میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوکر رہ گئی ہیں ،بالائی چترال کے اکثر علاقوں میں لوگ جلانے کے لیے پہاڑیوں میں موجود جونیپر جیسی قیمتی جنگلات کی بے تحاشہ کٹائی کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ چترال پائین سے آنے والی شاہ بلوط کے لکڑی کی خرید سے قوم کو شدید مالی واقتصادی نقصان ہورہا ہے تو دوسری جانب حکومت کو ملنے والی خطیر آمدنی بھی ختم ہوکر رہ گئی ہے۔ سال 2016ء کے موسم بہار میں حالات سے مجبور ہوکر علاقے کے عوام نے ریشن بجلی گھر بحالی تحریک کے نام سے ایک تحریک چلائی۔منتخب بلدیاتی نمائندوں اور سماجی کارکنوں نے ایک ماہ سے زائد عرصہ تک بھوک ہڑتال کیا۔ جب ایم پی اے مستوج سید سردارحسین نے پشاور میں صوبائی وزیر اعلیٰ سے ملاقات کرکے صورتحال سے آگاہ کیاتو وزیر اعلی پرویز خٹک نے ریشن پاؤر ہاؤس کی بحالی کے لیے 86کروڑ روپے جاری کرنے کا اعلان کیا ، اور 2016-17کے بجٹ میں اس پراجیکٹ کو اے ڈی پی میں شامل کرکے جلد ازجلد کام شروع کروانے کا عندیہ دیا تو وہ تحریک ختم کردی گئی۔ لیکن جس طرح صوبائی حکومت کے اکثر اعلانات کاغذوں تک محدود رہیں اسی طرح ریشن بجلی گھر کی بحالی کا اعلان بھی محض لولی پاپ ہی ثابت ہوا اور آج اس اعلان کو 18ماہ گزر گئے لیکن تبدیلی والی سرکار کو اس پر عمل درآمد کی توفیق نہ ہوئی۔ اس کی بجائے 27سو گھرانوں کو 27کروڑ روپے کے سولر پینل فراہم کیے گئے جبکہ اب صوبائی حکومت نے ایک سال کے لیے 12 کروڑ روپے کی سبسڈی ریٹ پر ریشن پاؤر ہاؤس کی جگہ رینٹل جنریٹر نصب کردیا ہے جس سے 14سو کلوواٹ بجلی حاصل ہورہی ہے۔ رواں ماہ کے آخر میں گولین گول ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے ایک فیز کا افتتاح کیا جارہا ہے ریشن پاؤر ہاؤس صارفین یہ اْمید لگائے بیٹھے تھے کہ شاید اس بجلی گھرکے افتتاح سے ان کو بھی بجلی ملے گی لیکن اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ پیڈو اور واپڈا کے درمیان ریشن پاؤر ہاؤس متاثرین کو بجلی دینے کے حوالے سے کوئی معاہدہ نہ ہوسکا۔ انتہائی باخبر ذرائع سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ پختونخواہ انرجی ڈیویلپمنٹ آرگنائزیشن یعنی پیڈو کے حکام نے واپڈ ا سے انتہائی غلط بیانی کرتے ہوئے یہ باور کرایا ہے کہ ریشن بجلی متاثرین میں سے بعض کو سولر، بعض کو رینٹل اور بعض جگہوں میں مائیکرو بجلی گھروں سے بجلی فراہم کی گئی ہے یوں علاقے میں بجلی کا کوئی مسئلہ نہیں۔ پیڈو کی اس غلط بیانی اور کسی قسم کا معاہد ہ نہ ہونے کی وجہ سے واپڈا نے بھی علاقے کو بجلی دینے کا فیصلہ ترک کردیا۔ یوں علاقے کے لوگوں کو گولین گول پراجیکٹ سے بجلی ملنے کی اْمید ختم ہوگئی۔وزیراعلٰی نے اپنے دورہ چترال کے موقع پر8نومبر 2017ء کو پولو گراؤنڈ چترال میں ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ریشن پاؤر ہاؤس کا آدھا سے زیادہ کام مکمل ہوچکا ہے جبکہ کام آج بھی تیزی سے جاری ہے ، اور روزانہ کی بنیاد پہ میں خود اس کام سے متعلق معلومات حاصل کررہا ہوں۔ درحقیقت اپر چترال کے عوام صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی باہمی چپقلش اور ایک دوسرے سے نفرت میں پس کر رہ گئے ہیں۔ صوبائی حکومت کا ادارہ پیڈو واپڈا کو اپنے انفراسٹریکچر استعمال کرنے اور اپنے زیر تسلط علاقے میں کام کرنے کی اجازت نہیں دے رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اپر چترال کامستقبل قریب میں بھی تاریک دور سے نکلنے کا کوئی امکان نہیں۔

Print Friendly, PDF & Email