تقسیم کی سیاست اور چترال کا مستقبل

ہندوکش اور ہندوراج کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع قبائلی خطہ چترال تاریخ کے انتہائی نازک دور سے گزر رہاہے۔ ایک طرف تزویراتی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیتو دوسری جانب اگلے چند برسوں کے دوران اس علاقے میں بہت بڑی اقتصادی تبدیلی بھی متوقع ہے۔ افغانستان میں جاری شورش اور امریکہ کی موجودگی نے چترال جیسے دور افتادہ پہاڑی خطے کی تزویراتی اہمیت کو دوبالا کیاہے تو سی پیک جیسے منصوبے سے علاقے میں غیر معمولی اقتصادی تبدیلیاں رونما ہونے کے امکانات ہیں۔ اس کے علاوہ معدنیات سے مالامال اس خطے پر بیرونی بیوپاریوں نے نظریں جمائی ہوئی ہیں۔حقیقت یوں ہے کہ آئندہ پانچ سے دس برسوں کے دوران یہ خطہ ناقابل بیان تبدیلیوں سے گزرنے والی ہے۔ یہ تبدیلیاں جہاں خطے کی ثقافت وزبان پر تباہ کن اثرات مرتب کرسکتی ہے وہیں معیشت پر بیرونی لوگوں کی گرفت مضبوط ہونے کی وجہ سے یہاں کے باسی مزید غربت وافلاس کی دلدل میں پھنس سکتے ہیں۔ دیکھا جائے تو اس بدلتے ہوئے حالات میں اقتصادی ، سماجی اور ثقافتی یلغار سے قوم کو بچانے کے لیے دانشوروں، سیاسی رہنماؤں اور خدمات فراہم کرنے والے اداروں کے پاس واضح روڈ میپ موجود نہیں۔جبکہ نام نہاد لیڈران قوم کو نان ایشو ز میں الجھا کر حقیقی مسائل سے صرف نظر کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔ اگلے انتخابات میں کامیاب ہوکر اقتدار پر اپنی گرفت مزید مستحکم بنانے کے لیے بعض لوگ مذہبی ، نسب ونسل اور علاقائی تعصبات کو ہوا دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ پہلے مرحلے میں نسب ونسل کی بنیاد پر قوم کو مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی حکمت عملی تیار ہوچکی ہے ، یوں انتشار زدہ معاشرے میں عدم برداشت اور اختلافات کو مزید ہوا دی جائے گی۔ اس کے بعد دوسرے مرحلے میں اس تقسیم شدہ قوم کو مختلف قسم کے نان ایشور میں الجھا کر انتخابات کے لیے راستہ ہموار کرنے کا منصوبہ ہے۔ معاشی، سماجی اور ثقافتی پروگراموں سے عاری بانجھ پن کا شکار سیاست دان جہاں قوم کے مذہبی اور نسبی احساسات کے ساتھ بھر پورکھلواڑ کی کوشش کررہے ہیں ، وہیں مذہبی کارڈ کا استعمال بھی کئے جانے کے امکانات ہے۔نسبی تنظیموں کو مزید فعال بنا کر دھونس دھمکیوں اور مراعات سے نواز کر ان کی ہمدردی حاصل کی جائے گی۔ اس تنگ تاریک گھاٹی میں کیا پروگریسیو اور ترقی پسند قوتوں کے پاس متعصب گروہوں کا راستہ روکنے کے لیے کوئی جامع حکمت عملی موجود ہے ؟بدقسمتی سے اس کا جواب تاحال نفی میں ہے اوّل تو پروگریسیو اور ترقی پسند قوتوں کی موجودگی کہیں دو ر دور تک نظر نہیں آرہی ہے اور اگر اس اندھیر نگری میں کہیں کوئی ترقی پسند سوچ دکھائی دے تو وہ اس وحشت ناک صحرا میں اکیلے ہی محو سفر ہیاعتدال پسندی کے فروع میں کوئی ان کا ہمسفر ہونے کوتیار نہیں حقیقت یوں ہے کہ چترال اپنی تاریخ کے انتہائی نازک دور سے گزر رہاہے۔ ان حالات میں فکری بانجھ پن اور تبدیل ہوتے ہوئے حالات سے بے خبر ی بھی اپنے انتہائی حدود کو چھو رہا ہے۔ اس گھٹا ٹوپ تاریکی سے قوم کو نکال کر بہتر مستقبل کی راہ پر ڈالنا ایک مشکل امر ہے جبکہ خاموشی اور مجرمانہ غفلت مزید ہولناک تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ چند افراد ہوس اقتدار کی لت میں بری طرح مبتلا ہیں جو اقتدار کے لیے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ اس موقع پر بہتر مستقبل کے متلاشی ترقی پسند افراد کو یکجا ہو کر نہ صرف سیاسی مفاد پرستوں کا راستہ روکنا ہے بلکہ پارٹی بازی ، نسلی ونسبی ، مذہبی اور علاقائی تعصبات سے بالاتر ہوکر ایسی قیادت سامنے لائی جائے جو قوم کو تقسیم کی بجائے یکجا کرکے ترقی کی راہ پہ گامزن کرسکے۔

Print Friendly, PDF & Email