ذکر چترالی قوم کے محسنوں کا

خدا کی اس بستی میں کچھ خاصال یگانہ ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ دوسرے انسانوں کی خدمت کا جذبہ عطا کرتاہے ان کے اس جذبے کی عکاسی مواقع کی مناسبت پر منحصر ہے۔ کسی  کو اللہ تعالیٰ بہت بڑے رتبے پر مقرر کرکے ان کی شہرت کو دور دور تک چار چرند کرنے کا موقع دیتا ہے لیکن بہت سے ایسے بھی ہیں کہ اپنی کم حیثیت کے باوجود بھی انسانیت کی  خدمت کے جذبے سے سر شار ہوتے ہیں۔

تنگ و تاریک سنگلاح پہاڑوں میں گھیرا ہوا یہ وادی چترا ل ان ہزاروں فرزندان درخشان سیرت سے خالی نہیں جنہوں نے مختلف میدانوں میں اپنی شہرت کا لوہا منوایا ہے۔

مضمون کی طوالت کے پیش نظر انہی اوصاف حمیدہ سے متصَف ان ہزاروں چمکتے ستاروں کا ذکر کرنا میرے لیے ممکن نہیں  ہے لیکن میں ان کے نمایاں خدمات اور روشن کارناموں سے مکمل واقف ہوں لیکن صرف چاروں کا ذکر  فی الحال ضبط تحریر میں لا رہا ہوں وہ چار انمول نگینے میری  نظر میں یہ ہیں۔

الحاج محمد جناب شاہ

آپ سابق  ریاست چترال سے باہر جاکر جو کہ لواری ٹنل سے باہر متحدہ ہندستان تھاگریجویشن کیا۔ پاکستان بننے کے بعد آپ ریاست چترال کے پہلے وزیر تعلیم مقرر ہوئے۔

چترال کے طول و عرض میں علم کی روشنی آپ ہی کے ذریعے پھیلی۔ آپ اپنےروزمرہ کے معمولات کے دوران بازار میں سودا سلف خریدتے ہوئے مسجد میں جاتے ہوئے یا باہر نکلتے ہوئے غم اور خوشی کے مجالس میں جہاں کہیں بھی کوئی نوجوان لڑکا آپ کو ملا۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ بیٹا کہاں تک پڑھا ہوا ہے۔ اگر کوئی یہ کہتا کہ مڈل یا میٹرک پاس ہوں تو برجستہ یوں کہتے کہ بیٹا  میں تم کو فلاں جگہ جے وی پوسٹ پر بھیج رہا ہوں اپنا سرٹیفیکیٹ لے کر نوکری کے لیے تیار ہوکر میرے پاس آجاو وہ آتے ہی آرڈر اس کے ہاتھ میں تھما دیتے۔ ان کے زمانے میں جتنے بھی اساتذہ کی تقرریاں ہوتی ہیں سب نے اس قسم کے قصے سنائے ہیں نہ رشتہ نہ ناطا، نہ علاقائیت، نہ قومیات نہ مسلک، نہ جماعت نہ سفارش، نہ رشوت ان کے نزدیک میرٹ صرف انسانیت تھی۔ آج کےد ور کے انسانوں کے لیے یہ ایک افسانہ ہے۔

اپنے عہدے کے فرائض منصبی کو اس نے جس انداز سے پہچانا اس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔ تریچ آن کے راستے موڑکھ،و لوٹ اویر ،موژین سے روانہ ہوکر براستہ  اویر آن  لوٹکوہ ،سوسوم ،کھوتان کے راستے وادی یارخون کے گاوں دیزگ ۔۔یہی سالانہ وزٹ کے لیے ان کے راستے تھے۔آج کے لینڈ کروزروں میں سفر کرنے والے افسران خود ہی اندازہ کریں کہ وہ کیا تھے۔ سکولوں کے معائنہ کرتے ہوئے، ان ٹرینڈ اساتدہ کو مرحلہ وار جے وی، ایس  وی اور جے اے وی  کیلئے لینڈ ی کوتل بھیجنے کے لیے تیار ہونے کا حکم کرتے۔ ان کی زندگی کا مختصر خاکہ بیان کرنے سے ان کی تمام شخصیت نکھر کر سامنے آجاتی ہے اس پر مذید روشنی ڈالنے  کی ضرورت نہیں۔

وقار احمد وقار صاحب

زمانہ بدلا۔ ون یونٹ کاخاتمہ ہوا ملا کھنڈ  ایجنسی کے خاتمے کے ساتھ چترال اسٹیٹ کا خاتمہ کرکے اسے ضلع کی حیثیت دے کر صوبہ سرحد موجود کے پی کے  میں زم کیا گیا ۔آپ چترال کے پہلے DEOتھے۔ صوبائی حکومت اور ڈائریکٹریٹ سے روابط استور ہوگئے

پاکستانی افسروں کا کرتا دھرتا سامنے آنے شروع ہوگئے لیکن اس افسر آہن نے اپنے سے پیشرو کے راستے سے ایک قدم بھی باہر نہیں

رکھا۔یہی وجہ ہے کہ چترال کے محکمہ تعلیم کے افق پر سب سے طویل مدت تک چھائے رہنے کے باوجود اس بڑےمحکمے میں بہت زیادہ تقرریاں اور تبادلے ان کے ہاتھ سے ہوئےلیکن کسی کے ہاتھ سے ایک گلاس پانی بھی پینے کا ان پر شائیبہ تک نہ ہوا۔

کہنے والے تو انہیں کنجوس کا طعنہ دیتے ہیں لیکن انہوں نے اپنی زندگی جس درویشی اور سادہ   مزجی میں گزار دی  وہ ایک مثال ہے محکمئہ  تعلیم میں جتنے بھی بڑے بڑے افیسرز ہیں سب ان کے ہاتھ کے Appointeeہیں  ۔بدقسمتی یہ ہے کہ ان کی کوئی اولاد نہیں  لیکن جب محکمئہ تعلیم ہیں پروموشن ا ور پنشن کا موقع آجاتا ہے تو  Istappointmentordirکی ضرورت پیش آنے پر ان کا دستخط اور نام سب کو یاد آجاتا ہے۔

سردار علی سردار امان المعروف پی ۔ایم جی:  

گو کہ آپ ڈائریکٹر کے عہدے تک  گئے مگر عوام الناس میں آپ   پی ۔ ایم ۔جی کے نام سے مشہو ر ہیں۔ آپ نے  گریجویشن ممبئی سے کی پھر کراچی یونیورسٹی سے ماسٹر کیا۔ آپ پہلے چترالی افیسر ہیں کہ جنہوں نے CSSکا امتحان اعزازی نمبروں سے پاس کیا۔

جس زمانے میں آپ CSSکیااس زمانے میں چترال کی ریاست کے اندر ڈپٹی کمشنر ، تحصیلدارل، افسر مالیہ وغیرہ ان پڑھ افیسرز  بھی  مختلف عہدوں پر تعینات تھے۔    آپ نے اپنی ملازمت  کا آغاز سندھ حکومت میں اسسٹنٹ پی ایم جی(ڈاکخانہ)کے عہدے سے کیا آپ ایک روشن خیال دور اندیش اور مدبَر انسان کے فرزند تھے کچھ ان کے نیک مشوروں کی طفیل اور کچھ اپنی ذاتی خدمت خلق کے جذبے کے پیش نظر  آپ نے کراچی کے اندر ٹھوکریں کھانے والے بیروز گار چترالیوں کو ڈاکخاے کے محکمے  میں اِدھر ادُھر  کھپانا  شروع کیا ۔آج بھی بہت   زیادہ افیسر  ان کی وساطت سے کراچی سے فارغ التحصیل ہو کر بڑے بڑے عہدوں سے پنشن لے رہے ہیں۔

اسی زمانے میں پورے سندھ کے اندر کوئی بھی ڈاکخانہ ایسا نہ تھاجس میں چترالی ملازم نہ ہو۔ یہاں سے بےروزگار نوجوان جو کراچی کا رخ کرتے تھے ان کانام لے کر جاتے تھے۔ آپ انہیں موقع ملنے پر کہیں  نہ کہیں  لگا  دیتے تھے اور بعد آزان آپ  صوبہ خیبر پختونخوا آئے۔ یہاں پر جب آپ کے اختیار ات بڑھ گئے تو آپ نے اس کے کونے کونے میں چترالیوں کو بھرتی کرنا شرو ع کیا ۔مجھے اچھی طرح یاد ہےاس وقت  کی اسمبلی میں یہ بل لایا گیا کہ صوبے میں اعلیٰ عہدے پر ایک ایسا افسر بھی ہے جس کے سامنے میرٹ صرف چترالی ہونا ہی ہے۔ کہ وہ چترالیوں کو بغیر کسی میرٹ کے بھرتی کرتے ہیں آج بھی چترال کے اندر ہزاروں خاندان  آپ کی  برکت سے رزق حاصل کررہے ہیں۔ لیکن ستم ظرفی کی بات یہ ہے کہ جب آپ ۲۰۰۲ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر آپ قوم کےسامنے آگئےتو پرویز مشرف کے امڈتے ہوئے طوفان اور ایم ایم اے کی یلغار کا مقابلہ نہ کرسکے اور قوم اپنے اس محسن کے ساتھ اپنی وفا نبھا نہ سکی کیونکہ آپ  کی پارٹِی   قائد ملک سے باہردربدری کی حالت میں تھی اور ملک کے  اندرونی حالات سب مخالف سمت میں تھے۔ اور آپ اپنی قابلیت کے باوجود اس طوفان کی نذر ہوگئے۔

صابق صوبائی وزیر قادر نواز

آج کے چترالی سیاسی قائدین لواری  ٹنل اور گولین بجلی گھر کے کریڈیٹ  کی  جنگ لڑ رہے ہیں کیا ہم نے کبھی سوچا بھی ہے کہ یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہوا  جب ہم غیر ملکی صیہونی طاقت کی غلامی سے آزاد ہوئے۔

پوری چترالی قوم اس طاقت کے باجگزار شخصی  حکمرانوں کے مظالم کے تلے دبے ہوئے تھے۔ آپ اپنے معاصرین آزادی کے پر وانوں کے ساتھ ملکر شخصی حکمرانوں کے مظالم کے خلاف طوفان بن کر سامنے آگئےآپ کے سر پر ہمیشہ ریاست کی ننگی تلوار لٹکتی رہی۔ لیکن آپ اور آپ کےبھائی سیف اللہ جان لال نے جان کی بازی لگا چترال میں مسلم لیگ کے قیام کے لئے سر توڑ کوشش کی ۔ اس زمانے میں صوبہ سرحد  میں کانگرسی اور مسلم لیگی لیڈراں دونوں انگریزوں کے خلاف سرحد کے غیور پٹھانوں  کو متحد کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ ان نامی گرامی سورماؤں میں ڈاکٹر  خان عبدالغفار  خان ، خان عبدالولی خان ، مولانا مفتی مفتی محمود، شبیر احمد عثمانی ،اجمل خان وغیرہ آپ کی جدوجہد سے متاثر ہوکر آپ کو شیر چترا ل کے نام سے یاد کرتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد ۱۹۷۱ء کے عام انتخابات میں آپ آزاد حیثیت سے الیکشن لڑکر صوبائی اسمبلی  کےممبر منتخب ہوگئے بعد آزاں آپ کی شخصیت سے متاثر ہوکر بھٹو صاحب نے آپ کو اپنی پارٹی میں شامل ہونے کے لئے دعوت دی۔ اسی طرح آپ چترال میں پیپلز پارٹی کے قیام میں اہم رول ادا کیا۔ بھٹو دور میں جو انقلابی کام چترال میں ہوئے ہیں آپ کی کاوشوں کا نتیجہ ہے لواری ٹنل کی ابتداء،چترال کے طول و عرض میں ایک ساتھ سڑکوں کا ٹنڈر ، عشر کا خاتمہ، تعلیمی اداروں کا قیام جن کی وساطت سے لاتعداد اسامیوں پر اساتذہ کی بھرتیاں، پولیس اور چترال اسکاوٹس کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ جن کی وجہ سے چترال کے اندر کوئی بھی نوجوان بے روزگار نہیں رہا۔ پولیس اور سکاوٹس کے افسران چترال کے اندر دور دور تک گاؤں گاؤں جا کر نوجوان لڑکوں کو گاڑیوں میں بھر بھر کر چترال اور دروش لاکر بھرتیاں شروع کردیے۔ آپ کی کوششوں سے صوبائی حکومت نے چترال کے اندر اشیائے  خوردونوش ، گندم، چینی، تیل خاک اور گھے کے سستے سبسڈی مقرر کرکےڈپو  ہولڈروں کے ذریعے تقسیم کرنے لگا۔ آج شاید کسی کو یقین نہ ہوگا کہ ایک روپے میں ۵ سیر نمک  ، ۴ لیٹر تیل خاک  ، ۱ سیر گھی، ۳ سیر چینی آتی تھی۔ گندم کی قیمت ۱۷ روپےمن تھی۔ لوگوں کے نام پر راشن کارڈ  افراد خانہ کی تعداد کے مطابق جاری  تھے جس کے مطابق ماہوار راشن کا ڈپو ہوتا تھا۔ بلیک مارکیٹ میں کسی کو کچھ لینے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ بھٹو صاحب کی توجہ چترال کی طرف مبذول کرانے میں آپ کا اہم کردار تھاجس کے نتیجے  میں چترال میں دور رس ترقیاتی منصوبے عمل میں آئے۔ یہ اس مرد مجاہد کی کاوشوں کی روئیداد تھی اس میں کسی قسم کا مبالعہ نہیں۔

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email