بات نہیں کہی گئی،بات نہیں سنی گئی

نپولین بوناپارٹ کا مشہور قول ہے کہ ‘ قوموں کی زندگی میں تباہی جاہلوں کی جہالت سے نہیں سمجھداروں کی خاموشی کی وجہ سے آتی ہے ‘۔نجی املاک کا تحفظ اور معاشرے میں اپنے ہم جنسوں کا استحصال تو سرمایہ دارانہ نظام کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک ہے البتہ ہمارے معاشرے میں سماجی استحصال اور لالچ تو ساری حدیں پار کردی ہے ۔ جو لوگ ممبر پربیٹھ کر خوبصورت الفاظ کے سہارے نصیحت کررہے ہوتے ہیں خود ایسے لوگوں کو ذرا سی کریداکرجائے تو اندرکی اصلیت لاوا کی مانند باہر آجاتی ہے اور خودنمائی کا شیش محل دیکھتے ہی دیکھتے زمین بوس ہوکر رہ جاتی ہے ۔ ہمارے معاشرے کا زوال اور تنزلی لاعلمی ، جہالت یا ناخواندگی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس زوال وتنزلی کے پیچھے پڑھے لکھے اور اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کا کردار نمایاں نظر آتا ہے ۔ سرکاری وغیر سرکاری اداروں میں براجمان بابو ہو یا سیاست دان، ادیب ہو یا دانشور کہنےکو تو وہ معاشرے کی اصلاح کے لئے بلند وبانگ دعوے کرتے ہیں لیکن جہاں اخلاقی اصولوں کو اپنے اوپر نافذ کرنے کا وقت آتا ہے تو یہ حضرات فرماتے ہیں کہ ‘ دشمانو لووو کار کو تو کورمو مو کو’۔ ہم میں سے ہر شخص سماجی مظاہر کو سطحی انداز سے دیکھ کر فیصلہ کرنے کے عادی ہے اور اپنے بنائے ہوئے خول سے باہر نکل کر کسی معاملہ کو مکمل سیاق وسباق کے مطابق مطالعہ کرنے کی کوشش نہیں کرتے ۔قوموں کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو انتہائی خون زیر جنگوں کے دوران بھی بات چیت اور گفتگو کے دروازے بند نہیں کئے جاتے ، اور جب معاملہ ذمہ داروں اور عام عوام کے درمیان ہو تو ذمہ دار افراد کو زیادہ ذمہ داری کا مظاہر ہ کرتے ہوئے معاملات کو افہام وتفہیم کے ذریعہ حل کرناہوتا ہے ۔ البتہ ہمارے ہاں کوئی فرد اگر ذراسا بھی کامیاب ہوجائے تو وہ معاشرے کے باقی لوگوں کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے یوں غلطیوں پر غلطیاں سرزرد ہوتی جاتی ہے لیکن چونکہ ان کامیاب افراد کے ذہنوں میں ‘خناس ‘ سوار ہوتا ہے لہذا وہ اپنے غرور وتکبر کی وجہ سے جھک کو نیچے دیکھنے کو اپنے لئے باعث شرمندگی سمجھتے ہیں یوں مسلسل غلطیوں کو دھراتے ہوئے ان کے ظلمت جبین پر شرمندگی کے ذرا سے آثار بھی نمودار نہیں ہوتے جبکہ معاشرے کے پڑھے لکھے طبقہ بھی صرف اپنی ذاتی لالچ یا کسی اور وجہ سے چھپ کا روز ہ رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ جن لوگوں کے ذہنوں میں ‘خناس ‘ سوار ہوتے ہیں ان سے اگر فاش غلطیاں بھی سرزد ہوجائے تو وہ اپنی غلطیوں کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے بلکہ غلطیوں کی نشاندھی کرنے والوں پر دشنام طرازیاں کرتے ہوئے انہیں دیوار سے لگا دیتے ہیں، مخالف نظرے کے خلاف ہر قسم کے ذہریلے پروپیگنڈہ کرنے اور اکثریت کے ذہنوں میں زہر بھرنے کے لئے سارے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں اور لاعلم تابعدار لوگوں کو اپنا ہم نوا بنا کر ان کا استحصال معمول کی بات بن جاتی ہے یہی استحصال ہمارے معاشرے کی پہچان بن گئی ہے

Print Friendly, PDF & Email