دروش علاقائی زُبانوں کا مرکز

دروش ضلع چترال کے جنوب میں واقع ہے دروش کے مغرب میں افغانستان ہے۔ پاکستان سے سیاح جب چترال کا رخ کرتے ہیں تو وہ براستہ لواری ٹاپ چترال میں داخل ہوتے ہیں۔ چترال کا پہلا شہر دروش ہے اگر اس اعتبار سے دیکھا جائے ۔ تودروش چترال کا گیٹ ہے۔ دروش کی آبادی تقریباً ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ دروش ہر اعتبار سے اہمیت کا حامل رہا ہے۔ لیکن میں دروش اور دروش سے ملحقہ وادیوں میں بولی جانی والی زبانوں کے حوالے سے لکھنا چاہتا ہوں۔ لہذا میں اپنے موضوع کی طرف آتا ہوں ۔
چترال میں بولی جانی والی مختلف زبانوں کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے۔ تو چترال میں بولی جانی والی مختلف علاقائی زبانون کا 72% زبانوں کا مرکز دروش ہے۔ چترال کے دوسرے علاقوں کی طرح دروش میں بھی بڑی اور رابطے کی زبان کھوار ہے۔ لیکن دروش کے مختلف وادیوں میں مختلف زبانیں بولنے والے بستے ہیں۔ دروش کے جنوب میں وادی ارندوہے۔ ارندو والوں کی مقامی زبان گواربتی ہے۔ گواربتی ارندو کے علاوہ افغانستان کے صوبہ کنڑکے مختلف شہروں ڈوکلام، بریکوٹ اور کنٹروغیرہ میں بھی بولی جاتی ہے۔ وادی ارندو ہی کے علاقوں اکروئے اور لنگوربٹ والوں کا مقامی زبان شیخاں وار ہے۔ اس کے علاوہ یہ زبان نورستان میں بھی بولی جاتی ہے۔ اس طرح اگر ہم ارندوسے دروش کی طرف آجائیں تو وادی دامیل والون کی مقامی زبان دامیڑی ہے لیکن اس علاقے میں پشتو اور گوجری زبان بولنے والوں کی بھی کافی تعداد موجود ہے۔
عشریت ،بیوڑی، گوس اور پرگاڑ کے علاقوں میں رہنے والوں کا زبان پلولہ ہے۔ جبکہ وادی شیشی کوہ کا علاقہ مڈکلشٹ میں مڈکلشٹی وار یعنی فارسی بولی جاتی ہے۔ اس طرح شیشی کوہ کے زیریں علاقوں میں پشتو، گوجری اورکھواربولنے والوں کی بھی کافی تعداد موجود ہے۔ وادی جنجریت کوہ میں کیلاشی اورکھوارزبان بولی جاتی ہے مگر بدقسمتی سے جنجریت کو ہ میں کیلاشی زبان تشویشناک حد تک کم ہو گئی ہے۔ جنجریت کوہ کے باسی اپنی مادری زبان کیلاشی کے بجائے نامعلوم وجوہات کی بنا ء پرکھواربولنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو ائند ہ چند سالوں میں سوئیر میں بولی جانی والی سوئیرانو وار کی طرح جنجریت کو ہ میں بھی کیلاشی زبان ختم ہو جائے گی۔ دروش کے ساتھ ملحقہ ایک اور وادی ، وادی اُرسون میں بھی کیلاشی ، کہواراورشیخانی زبانیں بولی جاتی ہیں ۔ ان زبانوں کے علاوہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں سے اپریشن کیوجہ سے نقل مکانی کرکے جو لوگ دروش میں آکر بستے ہیں ۔ جن کی مادری زُبان پشتو ہے۔ نقل مکانی کرنے والے لوگوں کے علاوہ دروش میں کاروبار کرنے والے لوگ باجوڑ، مہمند اور دیر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اُن کا مقامی زبان بھی پشتو ہے۔ مذکورہ تمام زبانیں دروش کے گردو نواح میں بسنے والے لوگوں کی مقامی زبانیں ہیں۔ تما م زبانیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اور بولنے والے بھی مختلف النسل ہیں ۔ یہ مختلف النسل اور مختلف زبانیں بولنے والے کبھی بھی دروش کے لیے مسئلہ نہیں بنے ہیں۔ بلکہ تمام لوگوں میں حد درجہ ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ جو کہ ایک خوش ائندبات ہے۔
اس ہم اہنگی کی جو اہم وجہ جو میری سمجھ میں آتی ہے۔ وہ یہ ہے۔ کہ یہاں کوئی بھی مقامی زبان بولنے والا خود کو اوراپنی زبان کو بالاتر اور دوسری بولیوں کو کم تر اور کم اہمیت کا حامل نہیں سمجھتا ہے۔ بلکہ ایک دوسرے کے زبانوں کا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔ دروش کے تمام باسی خواہ وہ جس نسل اور جس زبان سے بھی ہو وہ خود کو دروش کا بیٹا یا بیٹی سمجھتے ہیں اور فخر محسوس کرتے ہیں۔ اگرچہ دروش میں بھی بسنے والے لوگ اپنی مقامی زبانوں کو محفوظ کرنے او ر ترقی دینے کے لئے کوشان ہیں۔ اور اِسی وجہ سے یہاں بولی جانے والی تمام زُبانیں تا ہنوز محفوظ چلے آ رہے ہیں۔ یہاں پر زُبانوں پر کام کرنے والی تنظیمات اپنی زبان کو ترقی دینے کی خاطر کبھی بھی دوسروں کی زبانوں پر اثر انداز نہیں ہوتے۔ بلکہ انتہائی احتیاط سے کام لے کر اپنی زبان کو ترقی دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اور ساتھ ساتھ دوسرے کی زبان کو بھی ترقی دینے میں اُن کا ہم رُکاب ہوتے ہیں۔
دروش میں اگرچہ اپنی مقامی زبانوں کو ترقی دینے کی کوشش جاری ہے۔ لیکن کچھ زبان اِس کے باوجود بھی خاصکر کیلاشی زبان معدومیت کا شکار ہو رہی ہے۔ دروش کا علاقہ حضور بیکاندہ وغیرہ میں کیلاشی زبان بولی جاتی تھی۔ وہ آجکل بالکل ناپید ہے۔ جو کہ بہت بڑا المیہ ہے۔ اس تحریر کی وساطت سے میں زبانوں پر تحقیقق کرنے والے اداروں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اِن چھوٹی چھوٹی زبانوں کو ختم ہونے سے بچانے کیلئے اپنا حصہ ڈالیں۔ اور ساتھ ساتھ حکومت پاکستان اور خصوصاًصوبہ خیبر پختونخواکے محکمہ ثقافت سے گزارش کرتا ہوں۔ کہ وہ بھی اِن چھوٹی زبانوں کو ختم ہونے سے بچانے میں اپنا فرض ادا کریں ۔تاکہ اِن لوگوں کا شناخت ختم نہ ہو جائے۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے