"تاریخ چترال کے بکھرے اوراق ” ایک جائزہ

ہندوکش اورہندوراج کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع صوبہ نما ضلع چترال اپنی قدیم تہذیب و ثقافت ،قدرتی وآبی وسائل اور فطری حسن نیز دفاعی اہمیت کی وجہ سے نمایاں مقام کی حامل ہے اگر چہ چترال کی قدیم تاریخ سے متعلق کوئی مستند دستاویز موجو د نہیں البتہ وقتاََ فوقتاََ مختلف علاقائی اور بیرونی محققین نے لوک روایات وشعری بیانوں، لسانی سروے اور بعض آثاریاتی شواہد سے یہاں کی قدیم تاریخ سے متعلق مختلف نتائج اخذ کیے ہیں جوکہ چترال میں تاریخ نویسی کے حوالے سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے چونکہ چترال کی تاریخ پر متعدد کتابیں اورتحقیقی مقالات شائع ہوچکے ہیں، لیکن ابھی تک اس علاقے میں اولین انسانی زندگی اور مختلف حکومتوں وغیرہ سے متعلق متفق علیہ تصور کا فقدان ہے۔ باوجوداس کے چترال کی تاریخ پر اردو اور انگریزی زبانوں میں متعدد کتابیں شائع ہوچکی ہیں لیکن ضلع چترال میں  موجود لائبریریوں میں چترال کی تاریخ سے متعلق کوئی تصنیف آپ کو نہیں ملے گی۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان نسل چترال کی قدیم وجدید تاریخ سے ناواقف ہے۔ علاوہ ازیں چترال کی قدیم تاریخ سے متعلق دستاویزی موادبھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ساتھ ساتھ اگر دیکھا جائے تو جدید تاریخ(1947ء سے تاحال) کے متعلق بھی تاریخ کے طالبعلموں کے ہاتھ ڈھونڈننے سے بھی کچھ نہیں آتا۔جس کی وجہ سے نئی نسل اپنی تاریخ کے حوالے کچھ نہیں جانتی اور اس کے اثرات علمی مباحثوں اورفیصلہ سازی میں گمراہی کی صورت میں سامنے آتے ہیں کیونکہ جو قومیں اپنی تاریخ سےکوئی سبق  نہیں سیکھتی ان کا انجام عبرناک ہوتاہے۔ قدیم تاریخ چترال پر ایک نئی تحقیق نامور دانشور پروفیسر اسرارالدین کی تصنیف ’تاریخ چترال کے بکھرے اوراق‘ کے نام سے شائع ہوچکی ہے ۔ پروفیسر اسرارالدین صاحب کا شمار بین الاقوامی شہرت کے حامل چترالی دانشوروں میں ہوتاہے جو کہ عرصہ درازتک  جامعہ پشاورکے شعبہ جغرافیہ کے چیئرمین رہ چکے ہیں ۔اس کے علاوہ آپ کئی کتابوں اور تحقیقی مقالوں کے مصنف ہیں۔ پشاور اور اسلام آباد میں زیرتعلیم چترالی طلبا ء وطالبات کاواحد نمائندہ رسالہ "ماہنامہ تریچمیر”کے سرپرست اعلیٰ  اور روحِ رواں رہے۔ ان دنوں موصوف ریٹائرمنٹ کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔:

"تاریخ چترال کے بکھرے اوراق” چترال کی تاریخ نویسی میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے اس کتاب کا پیش لفظ سوات یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور ڈین فیکلٹی آف ہیو مینٹیزمحمد فاروق سواتی نے لکھاہے ۔دیباچے منصف  کتاب کا خلاصہ بیان کرنے اور تاریخ نویسی کے مسائل پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔یہ کتاب بنیادی طورپر تیرہ ابواب پر مشتمل ہے۔  پہلے باب کا عنوان "چترال” ہے جس میں ضلع چترال کی تاریخی پس منظر اور تاریخ نویسی پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے ۔دوسراباب”چترال کی آرکیالوجی ” کے حوالے سے ہے ۔اس میں ایک انگریز محقق سرآرل سٹائن  کے مشاہدات سے استفادہ کرکے انتہائی قدیم تاریخ ،چینی تاریخی ماخذات میں چترال سے متعلق موضوعات نیز مستوج میں واقع اہم آثاریاتی مقامات کی نشاندھی کی گئی ہے ۔باب نمبر 3″چترال کی آرکیالوجی (موجودہ دور)” کے عنوان سے ہے۔ جس میں بالائی چترال کے تاریخی گاؤں پرواک میں واقع آثار قدیمہ کی کھدائی سے حاصل ہونے والی قبروں ،مکانات اور مختلف نوردات سے متعلق مصنف یوں لکھتے ہیں کہ” 1967ء میں ایک یورپی ارکیالوجسٹ سٹکل نے چترال میں ماقبل تاریخ کے زمانے کی چارقبریں دریافت کی ۔یہ قبریں ان کو چترال ٹاؤن کے بکماک، بالاحصار( اوچسٹ)،اور نوغور موڑی نیز بروز میں تھمیونک میں ملیں ۔لیکن وہ صرف نوغور موڑی والی قبر کی کھدائی کرسکا۔ جس میں  اس کو لوہے کا بنا ہوا نیزے کابھال ،ٹوٹا ہوا مٹی کابرتن اور انسانی ہڈیوں کا ڈھانچہ ملا۔1970ء میں کیمبرج یونیورسٹی ( برطانیہ)  کے مشہور ماہرین آثار قدیمہ بی آلچن اور آرآلچن کو کسی ذریعے سے ایون سے ملے ہوئے مٹی کے برتن پیش کئے گئے  جن کا تعلق   ماہرین  نے گندھار ا دور  کی قبروں سے جوڑ دیا۔1972ء میں راقم نے  ایک ارکیالوجسٹ دوست انعام اللہ جان مرحوم ( جو کہ اس زمانے میں پشاور یونیورسٹی میں لیکچرر تھے) کے ہمراہ ایک مقامی دانشور گل نواز خان خاکی کی نشاندہی پر سنگور میں ایک مقام پر کھدائی کی ۔ جہاں پر ہمیں ایک دومنزلہ قبر مل گئی ۔ قبرکا اوپر والاحصہ مقامی لوگوں نے کھود کر خراب کردیاتھا جبکہ نیچے والے حصے میں نوعددمٹی کے برتن اور ایک عدد  مٹی کا مجسمہ ملا ۔مٹی کے برتنوں میں چارصراحی ،تین عدد بڑے پیالے اور دوعدد دودھ کے برتن ملے۔ اس طرح اس وقت پاکستان میں پہلی دفعہ دومنزلہ قبروں کی دریافت کی گئی تھی اور اس طرح آریائی قبروں کی ثقافت (Aryan Gravr Culture) کے دائرے میں چترال کا علاقہ بھی شامل ہوگیا تھا۔( ان نوردات ) کے تقابلی جائزہ سے یہ معلوم کیاگیا تھا کہ ان برتنوں کا تعلق "حصار دور” سے ہے جو کہ تقریباََدوہزار سال قبل مسیح کا زمانہ تھا۔ حال ہی میں اسی سائٹ پر برآمد شدہ ہڈیوں کی ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کی گئی ہے جس کا زمانہ 360ق م سے 90عیسوی تک اندازہ لگایا گیا ہے ۔

1998-99ء میں پشاور یونیورسٹی ،کلاسگویونیورسٹی اور بریڈ فورڈ یونیورسٹی (برطانیہ) کے اشتراک سے ضلع چترال کے لیے ایک سائنسی مطالعاتی پراجیکٹ تشکیل دی گئی تھی جس میں مقامی اور باہر کے ممالک کے ماہرین طبقات الارض ،نباتات ،ارضیات ،ماحولیات،آثاریات وغیرہ نے حصہ لیا تھا، اس پروجیکٹ میں خاص طورپر بریڈ فورٹ یونیورسٹی کی ٹیم پشاور یونیورسٹی کے اس وقت کے شعبہ ارکیالوجی کے پروفیسر وچیئرمین ڈاکٹر احسان علی  کے زیر قیادت ضلع چترال میں صحیح انداز میں آثار قدیمہ کے اہم مقامات کاکھوج لگانے کے لیے بھر پورکام کیا۔ جس کے نتیجے میں رومبور اور دریائے چترال کے ساتھ مختلف علاقوں میں 18مقامات پر پہلی مرتبہ گندھاراقبریں دریافت کیں۔ اس کے علاوہ 15قبرین آریائی زمانے کی  تھیں۔ تین تاریخی قلعے بھی دریافت کیے گئے ۔ اس کے بعد 2003ء میں محکمہ آثاریات وعجائب خانہ جات خیبر پختونخواہ ،محکمہ آثارقدیمہ حکومت پاکستان اور بوسٹن یونیورسٹی (امریکہ) کی ٹیم نے ڈاکٹر احسان علی (جو اس وقت محکمہ آثارقدیمہ کے پی کے کے ڈائریکٹر تھے) کی قیادت میں اور ڈاکٹر ایم آرمغل کے ہمراہ ضلع چترال میں پرواک کے مقام پر اہم دریافتیں کیں۔
2004ء میں ڈاکٹر نسیم خان نے چرون میں پتھر کے کتبے کے علاوہ ژونڈاک ،گومست،شوڑگوچ میں پتھروں پر کتبوں نیز  ایون ،بونی ،راغ میں گندھارا زمانے کی قبروں کے بارے میں نشاندہی کی۔ نیز گہریت اور کوہل میں پرانے گاؤں کے آثار ان کو ملی۔

اب تک کل 89مقامات میں آثار قدیمہ کی دریافتیں عمل میں آئی ہیں جن میں سے پرواک او رسنگور کے مقامات میں کھدائی کا کافی کام مکمل ہوچکاہے ۔پرواک کی کھدائی پر ابتدائی رپورٹ بھی منظر عام پر آچکی ہے البتہ سنگور کے حوالے سے رپورٹ ابھی بھی مکمل نہیں ہوئی ۔جن مقامات پر آثار قدیمہ کی دریافت ہوئی ہے ان کی تفصیل زمانوں کے مطابق حسب ذیل ہے
1۔ گندھارا تاریخ(34 )                  2-گندھارا قبوری کلچر( 8)       3- بدھ مت دور(1 )          4- کالاش دور(12)
5- پانچویں صدی عیسوی(1)              6-  اوّلین اسلامی دور(2)        7- اُمیّہ دور(2)               8- گیارھویں صدی(1)
9- سولہویں صدی (1)                   10- اٹھارویں صدی(1)       11- انیسویں صدی (1)        12-1850(1)
13- حالیہ اسلامی دور(3)                 14- کٹور دور (4)             15-برطانوی دور (4)          ٹوٹل دریافتیں  :  89
اسرارالدین، تاریخ چترال کے بکھرے اوراق،(ص53,54,55,56)
چوتھاباب،چترال کا لاش قبیلہ ( شیگر کی تحقیق ) کے عنوان سے ہے۔ جس میں کالاش کی اولین نسل ،ان کی ثقافت ،مذہب ،رسم ورواج ،عبادات العرض کالاش برادری کی زندگی کے سارے گوشوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔پروفیسر صاحب چترال میں حالیہ چند برسوں کے آثار قدیمہ کی تحقیق اور نئی تاریخی حقائق سے متعلق لکھتے ہیں کہ ’’ارکیالوجیکل ٹیم نے ( چترال میں )سروے کے دوران گندھارا تہذیب کی قبروں کے چند ثبوت بھی دریافت کیے ۔پروجیکٹ کے سرپرست ڈاکٹر احسان علی( موجودہ وائس چانسلر عبدالوالی خان یونیورسٹی مردان) کے مطابق یہ تقریباََ تین ہزار سال پرانی قبریں ہیں جو کہ ساؤتھ ایشین آرکیالوجی کے نئی اطلاعات سے مشابہت رکھتی ہے ۔

ڈاکٹر احسان کی نگرانی میں پراجیکٹ کے آخری دوقسطوں کے دوران تحقیقی کام احسن طریقے سے انجام پائے۔ ان تحقیقات کی روشنی میں چترال کے لوگوں بالخصوص کالاش  قبائل کے بارے میں یونانی والنسل ہونے کا نظریہ غلط ثابت ہوا  بلکہ ان کے آریاء النسل ہونے کے قومی شواہد حاصل ہوئے‘‘ (تاریخ چترال کے بکھرے اوراق،ص61)
مصنف جدیدآثاریاتی تحقیقات کے بعد سامنے آنے والی شواہد سے اس مفروضے کو غلط ثابت کیا کہ کالاش دراصل سکندر اعظم کی سپاہیوں کی اولاد  ہیں البتہ آج بھی اس مفروضے کو مقامی اور غیر مقامی علمی حلقوں   میں یقین کی حد تک درست ماناجاتاہے ۔کتاب کے پانچویں باب بہ عنوان ’چترال کے بعض پرانے باشندے "مرزارحمت نظر کی یادداشتیں "ہے۔جس میں چترال بالخصوص چترال ٹاؤن، دروش ، اور ارندووغیرہ کے مختلف علاقوں میں مقیم چند پرانی نسلوں پر کہیں مختصراََ اور کہیں جامع انداز سے روشنی ڈالی گئی ہے ۔(جاری ہے )

نام کتاب: تاریخ چترال کے بکھرے اوراق
مصنف: پروفیسر اسرارالدین
سن اشاعت:2016ء
ناشر:مکتبہ جمال،لاہور
قیمت:400روپے

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے