چترال میں صحافتی معیار اور نوکر شاہی کی نمائش

چترال میں پروفیشنل صحافیوں کا فقدان اور میڈیا ہاؤسز کا عام افراد سے بنا تنخوا ہ مفت میں کام لینے کی وجہ سے صحافت کا شعبہ زبون حالی کاشکار ہے۔ ہمارے صحافیوں کی اکثریت کو یہ علم نہیں کہ صحافتی اقدار کیا ہوتی ہیں ؟ رپورٹنگ، تجزئے اور خبروں میں بنیادی فرق کیا ہے؟اسی لیے سوشل میڈیا کی طرز پہ چترال میں سرگرم میڈیا چینل یعنی ویب سائیڈز کام کررہے ہیں۔ ان اداروں میں نشر ہونے والی خبریں دراصل خبریں اوررپورٹ نہیں بلکہ نوکر شاہی اورسیاست دانوں کی اشتہاری مہم ہے۔چند ماہ قبل جب ڈی سی چترال کا یہاں سے تبادلہ ہوا اور ارشاد علی سودھر کو نیا ڈی سی چترال بنایا گیا تو اس کے ساتھ ہی ان کی مصروفیت اور سفر سے متعلق خبروں اور رپورٹوں کاسلسلہ شروع ہوا۔ سوشل میڈیا میں چلنے والی خوش آمدیدی بینر اس کے علاوہ تھے۔ اس کے بعد جب نئے ڈی پی او کی آمد ہوئی تو چترال کے مقامی خبر رساں اداروں کی جانب سے پل پل کی خبریں نشر کی گئی۔ اسی دوران ڈی سی ارشاد سودھراور ڈی پی او منصورامان کی گھڑ سوار ی بھی خاصے دنوں تک میڈیا کی زینت بنی رہی۔ ان دنوں ضلع انتظامیہ کے ایک اعلیٰ افسر کی جانب سے ہر دوسرے روز چترال بازار کامعائنہ کرنے ، گران فروشوں اور ٹرانسپورٹ مافیاز کے خلاف قانونی کاروائی اور تنبیہ کی خبریں بھی تسلسل کے ساتھ محوگردش ہیں اور بہت جلد سوشل میڈیا میں تصاویر ڈال کر داد وتحسین وصول کرتے ہیں۔ بھلا کسی سرکاری عہدے دار کا تبادلہ یا بازاروں کا معائنہ بھی کوئی خبر ہوئی ؟ اسی طرح سیاست دانوں کی ہر حرکت پر ہمارے صحافی بھائیوں کی کڑی نظر ہے۔لیکن ابھی تک پشاور ٹو چترال یا چترال کے اندر ٹرانسپورٹر کی جانب سے وصول کیے جانے والے کرایوں سے متعلق کوئی ایک رپورٹ بھی ہمارے میڈیا اور صحافی دوستوں نے شائع نہیں کی۔ ہر روز چالان اور جرمانوں کی خبریں تو میڈیا میں نشر ہوتی ہے لیکن نوکر شاہی کی اس اشتہاربازی کا عوام کو ابھی تک کوئی فائد ہ نہیں ملا۔ آج بھی ڈرائیورطبقہ کی جانب سے انتظامیہ کے جاری کردہ 750 روپے کی بجائے چترال ٹو پشاور ایک ہزار روپے کرایہ وصول کرتے ہیں۔آئے روز بازاروں میں گران فروشوں اور غیر معیاری اشیاء کی فروخت پر دکانداروں کو جرمانہ تو کیا جاتا ہے لیکن کیا اس گران فروشی کی روک تھام ،زائد المیعاد اور غیر معیاری اشیاء کی ترسیل وفروخت روکنے کا کوئی بندوبست کیا گیا ؟ سالِ رواں کے پورے موسم گرما میں موٹر سائیکلوں پر لاد کر چترال کے کونے کونے میں آئس کریم پہنچایا گیا۔کیا انتظامیہ نے ان لوگوں کو کنٹرول کرنے اور فروخت ہونے والی آئس کریم کے معیار کو چیک کرنے کی زحمت گوارا کی ؟ چیپس سے لے کر مشروبات کے نام پر ہر موسم میں چترال کے کونے کونے میں زہر بھیجا جارہا ہے لیکن کیا انتظامیہ کو ان جرائم کی کانوں کان خبر ملتی ہے ؟ کیا ہمارے صحافی بھائیوں نے کبھی بھولے سے اس جانب توجہ دی ہے ؟ امتحانات کے دنوں میں ضلعی انتظامیہ کے افسروں کے بندوق بردار سپاہیوں سمیت چترال کے کسی تعلیمی ادارے میں امتحانی ڈیوٹی دینے کی تصویر سوشل میڈیا میں گردش کرنے لگی تو اس پر سوشل میڈیا میں تنقید ہوئی تو مختلف انداز سے باقاعدہ دھمکیاں دی گئی۔ چترال کے ضلعی انتظامیہ کی جانب سے سوشل اور مین اسٹریم میڈیا میں چند تصاویر ڈال کر عوام پہ احسان عظیم کیا جارہا ہے تو دوسری جانب ہمارے صحافی دوست بھی انتظامی آفسران کی ہر حرکت پر جان نچھاور کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ دیکھاجائے تو چترال میں صحافتی معیار زبوں حالی کا شکار ہے ،صحافیوں کی کوشش عوامی مسائل کو اجاگر کرنے سے زیادہ سرکاری اہلکاروں اور سیاست دانوں کی تشہیر ی مہم ہے، اسی وجہ سے عوامی مسائل حل ہونے کی بجائے روز بروز الجھ کر رہ جاتے ہیں۔

Print Friendly, PDF & Email