اسٹیٹ بینک سے ایکسچینج ریٹ میں مداخلت کا میکنزم اور بیان پر وضاحت طلب

سینیٹ کی خزانہ کمیٹی نے گورنر اسٹیٹ بینک سے ایکسچینج ریٹ میں مداخلت کا میکنزم اور بیان پر وضاحت طلب کرلی۔

سینیٹ کی کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف کمیٹی کے ارکین پھٹ پڑے۔

تفصیلات کے مطابق سینیٹر طلحہ محمود کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس منعقد ہوا۔

اجلاس میں ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے روپے کی قدر کے اتار چڑھاؤ میں مداخلت کا اعتراف میں ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بنک نے کہا کہ پوری دنیا میں مرکزی بینکس مداخلت کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ایکسچینج ریٹ کی حرکت کا مہنگائی پر اثر پڑتا ہے۔ اس وقت خوراک اور توانائی کی مہنگائی پوری دنیا میں ہے۔

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں حکومتی سینیٹر ولید اقبال نے بھی گورنر اسٹیٹ بینک کے بیان کو حقائق کے منافی قرار دیا جبکہ سینیٹر کامل علی آغا نے سوال کیا کہ اسٹیٹ بینک کیسے مداخلت کرتی ہے؟ ہمیں بتایا جائے۔ جب ڈالر 153 سے 175 پر چلا گیا اسٹیٹ بینک نے مداخلت کیوں نہیں کی؟

اجلاس کے دوران سینیٹر فیصل سبزواری نے ڈپٹی گورنراسٹیٹ بنک سے پوچھا کہ جب میکنزم ہے تو پھر بتایا جائے کہ کس وقت مداخلت کی جاتی ہے۔
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے اجلاس میں کمیٹی ارکان کو بتایا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کورونا سب سے بڑا دنیا کیلئے شاک تھا۔

سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ عالمی مارکیٹ میں مہنگائی کی بات کی جاتی ہے تو پھر ڈالر کی قیمت کیوں بڑھ رہی ہے؟اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں ایک دفعہ اضافہ ہوجائے تو پھر کمی نہیں ہوتی۔

کامل علی آغا نے اجلاس میں مزید کہا کہ اسحاق ڈار کو اسحاق ڈالر کہتے تھے کہ وہ گیمبلنگ کرتے تھے،آج تو 24 دفعہ گیمبلنگ ہوئی ہے اور کوئی پوچھتا نہیں ہے۔

چیئرمین کمیٹی طلحہ محمود نے کہا کہ لاہور میں ایک شخص سے 6.5 ملین ڈالر پکڑے گئے۔ ڈالر افغانستان اسمگل ہورہا ہے جس کی وجہ سے روپے کی قدر میں کمی ہوئی۔
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ نے چیئرمین کمیٹی کی بات سے اتفاق کیا اور کہا کہ مارکیٹ میں طلب و رسد ایکسچینج ریٹ کا تعین کرتا ہے۔

سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ ڈالر کی اڑان سے فائدہ ہونے کی باتیں درست نہیں ہے ، گورنر اسٹیٹ بینک کا بیان حقائق کے برعکس ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ہمیں تو حکومت کی کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی ۔آج روپیہ ٹکے سے بھی آدھا ہوگیا ہے۔ ڈالر کے حوالے سے عالمی ادارے کہہ رہے ہیں کہ 200 تک جائے گا۔ ایک دم ڈالر کے اوپر جانے پر اسٹیٹ بینک نے کوئی جواب نہیں دیا۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ جو بیان گورنر اسٹیٹ بینک نے دیا اس کا کیا مقصد تھا؟ گورنر اسٹیٹ بینک کوئی سیاسی عہدہ نہیں ہے، ان کو سیاسی بیان نہیں دینے چاہیے۔غیر ذمہ دارانہ بیانات کا عوام پر اثر پڑتا ہے۔

سینیٹر کامل علی آغانے پھر کہا کہ گورنر اسٹیٹ کا بیان غلط ہے اور بیرون ملک پاکستانیوں کو اس سے نقصان ہورہا ہے۔ روپے کی قدر کو مستحکم کرنا حکومت کی اور اسٹیٹ بینک کی ذمہ داری ہے۔

سینیٹر انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ مجھے افسوس ہورہا ہے گورنر اسٹیٹ بینک نے ایسا بے تکا بیان دیا ہے۔ایسے بیان کا اسٹیٹ بینک کے لوگ دفاع کررہے ہیں۔ روپے کے اتار چڑھاؤ پر قابو پانا اسٹیٹ بینک کی ذمہ داری ہے۔

سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ مہنگائی پاکستان میں بالکل بے قابو ہوچکی ہے۔یوٹیلیٹی پرائسز اور آئل پرائسز میں اضافہ ہورہا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے حوالےسے بتایا جائے کہ کیا مذاکرات چل رہے ہیں؟

سینیٹر مصدق ملک بولے ملک تمیں ین سال میں 50 فیصد روپے کی قدر میں کمی ہوئی اور برآمدات 3 فیصد بڑھیں۔ ملک درآمدات ذرا کم ہوئیں تو شادیانے بجائے گئےاور ملک میں روپے کی قدر میں کمی سے جی ڈی پی تباہ ہوئی۔

کمیٹی نے گورنر اسٹیٹ بینک کے بیان پر وضاحت اور ایکسچینج ریٹ میں مداخلت کا میکنزم بھی اسٹیٹ بینک سے طلب کرلیا۔

The post اسٹیٹ بینک سے ایکسچینج ریٹ میں مداخلت کا میکنزم اور بیان پر وضاحت طلب appeared first on .

Print Friendly, PDF & Email