بھارت میں تاریخی قطب مینار کی مسجد سے متعلق ہندو انتہا پسندوں کا دعویٰ جھوٹا قرار

بھارتی عدالت نے دہلی کی اولین جامع مساجد میں سے ایک قوت الاسلام مسجد پر ہندو انتہا پسندوٓں کا دعویٰ مسترد کردیا ہے۔

کئی دہائیوں سے بھارتی ہندو انتہا پسندوں کا یہ شیوہ رہا ہے کہ وہ تاریخی مساجد اور عمارات پر مندر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، قدیم بابری مسجد بھی اسی بہانے کی آڑ میں شہید کردی گئی، اس کے علاوہ کئی مساجد ایسی ہیں جہاں دہائیوں سے نماز ادا نہی کی جاسکی۔

ایسی ہی ایک تاریخٰ مسجد دہلی کی قوت الاسلام مسجد بھی ہے۔ اس بارے میں ہندوؤں نے یہ دعویٰ کررکھا ہے کہ مسجد کے قیام سے پہلے یہاں جین اور ہندوؤں کے مندر تھے۔ عدالت میں اس حوالے سے یہ درخواست بھی دی گئی کہ اس سلسلے میں ایک ٹرسٹ بنا کر یہاں ہندوؤں کو عبادت کا حق دیا جائے۔

ہندوؤں کی درخواست کے خلاف میر اختر حسین نامی وکیل نے انتہائی مدلل دلائل دیئے اور ثابت کیا کہ اس مسجد سے پہلے یہاں کوئی مندر نہیں تھا۔ عدالت نے فریقین کے دلائل اور شواہد کی روشنی میں ہندوؤں کی درخواست خارج کردی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ قوت اللسلام مسجد میں ہندوؤں کو عبادت کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

قوت اسلام مسجد کا تاریخی پس منظر

قوت اسلام مسجد دہلی کے علاقے مہرولی میں واقع تاریخی قطب مینار سے ہی ملحق ہے، قطب مینار دنیا کے عجائبات میں شامل رہا ہے۔ صدیوں تک اسے دنیا کی بلند ترین عمارت کا اعزاز حاصل رہا ہے۔ قوت الاسلام مسجد کو دہلی میں پہلی جامع مسجد بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی تعمیر 1190 میں شروع ہوئی بعد میں معروف بادشاہ التمش نے اسے وسعت دی۔ برطانوی حکومت کی جانب سے 1914 میں اسے قومی ورثہ قرار دیا گیا۔

The post بھارت میں تاریخی قطب مینار کی مسجد سے متعلق ہندو انتہا پسندوں کا دعویٰ جھوٹا قرار appeared first on .

Print Friendly, PDF & Email