گولین گول کی بجلی اور ہمارامستقبل

یہ خوش آئند بات ہے کہ چترال میں گولین گول کا 108میگاواٹ پن بجلی گھر واپڈا نے 33سال محنت کے بعد تکمیل کے قریب پہنچا دیا ہے اور 36میگاواٹ کا پہلا یونٹ تیار ہو گیا ہے۔ 1985ء میں بجلی گھر کی منصوبہ بندی اور 1987ء میں اکنیک(ECNEC )سے اس کی منظوری کے بعد 2018ء میں پہلا بلب روشن ہونے تک 33سالوں میں واپڈا کے ساتھ چترال کا تجربہ بے حد تلخ رہا۔کالونی کے لیے بنجر زمینوں کو آباد کرنے کی جگہ لہلہاتے کھیتوں اور باغوں کو تباہ کیا گیا۔ سوئچ یارڈ کے لیے پھر گاؤں کے خوبصورت مناظر کو برباد کر دیا گیا۔ملازمتوں میں مقامی لوگوں کو ترجیح دینے کا وعدہ پورا نہیں ہوا۔ ماڈل سکول اور ہسپتال کے قیام کا وعدہ بھی پورا نہیں ہوا۔ یہاں تک کہ منصوبے کے لیے ماحولیاتی جائزے کے وقت زمینوں کے لیے مارکیٹ ریٹ کے مطابق معاوضہ دینے کا وعدہ بھی پورا نہیں کیا گیا۔ بجلی گھر کا ایک حصہ مکمل ہونے کے بعد بعض حلقوں کی طرف سے سیاستدانوں اور واپڈا حکام کا شکریہ ادا کیا جارہاہے جو ہر لحاظ سے بے جا اور زمینی حقائق کے خلاف ہے۔ واپڈا ہاؤس لاہور کے ذرائع اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ 1961ء میں جب فیلڈ مارشل ایوب خان بجلی کے منصوبوں کا سروے کرایا تو چترال میں 26ہزار میگاواٹ کے منصوبوں کا سروے ہوا۔ گولین گول ان میں شامل تھا اور اس کی گنجائش 4ہزار میگاواٹ تھی۔ زندوڑی ،سین ڈوک اور گہریت کے منصوبے بھی اس میں شامل تھے۔1984ء میں جرمن انجینئروں نے چترال کا سروے کرکے لاسپور،تریچ،یارخون،لوٹ کوہ اور شیشی کوہ سمیت 41ہزار میگاواٹ منصوبوں کی نشاندہی کی تھی۔ ہماری طرف سے شکریہ ادا کرنے کا جواز اسی وقت بن جاتا جب 26ہزار یا 41ہزار میگاواٹ بجلی چترال میں پیدا کی جاتی۔ 108میگاواٹ تو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر بھی نہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ درگئی میں ملاکنڈ کے عوام کے ساتھ ایک روپیہ فی یونٹ کے حساب سے فیلٹ ریٹ پر بجلی دینے کا معاہدہ کیا گیا ہے۔یہ مقامی لوگوں کی تکالیف کا ازالہ اور مقامی پانی کے استفادہ کنندگان کے لیے مراعات/ریالٹی کا حصہ ہے۔دوسروں جگہوں پر بھی مقامی آبادی کے لیے اس طرح کی مراعات کی مثالیں موجود ہیں۔چترال کے عوام 12روپے یا 18روپے یونٹ کے نرخ پر گھریلو استعمال کی بجلی کا بل ادا کرنے کی استعداد نہیں رکھتے کیونکہ بجلی آنے کے بعد بل میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس لیے اب وقت ہے کہ چترال کے عوام ،بجلی صارفین،سیاسی اور سماجی رہنما یک زبان ہوکر مقامی آبادی کے لیے ایک روپیہ یونٹ یا کم ازکم پیداواری لاگت پر بجلی دینے کا مطالبہ کریں ۔واپڈا حکام کے ساتھ اس مطالبے پر تحریری معاہدہ ہوجائے تو چترال کے لیے خوش خبری اور فتح کامرانی ہوگی۔اس مطالبے سے ہمارا مستقبل وابستہ ہے۔
Print Friendly, PDF & Email