چترال کے نئے کھنڈارات

کھنڈارات کا لفظ عموما آثار قدیمہ اور ہزاروں سال پرانی عمارتوں یا مقبروں کے لئیے استعمال ہوتا ہے ،لیکن چترال میں جو کھنڈارات دریافت ہوئے ہیں،وہ بمشکل 6 سال پرانے ہیں ۔2013تک یہ کھنڈارات نہیں تھے، 2019ءمیں ایک دانشور کایہ قول سرکاری عمارتوں ، سڑکوں اور پلوں پر صادق آتا ہے جس میں دانشور نے کہا تھا "کھنڈارات سے پتا چلتا ہے عمارت نفیس تھی” آپ چترال میں دروش سے ریشن تک مرکزی سڑک کے دونوں اطراف دیکھیں، 100کلومیٹر کے اندر آپ کو بے شمارنئے کھنڈارات ملیں گے، ان کھنڈارات میں گرلزڈگری کالج دروش اور ریشن کا 4 میگاواٹ بجلی گھر نمایاں ہیں- ائرپورٹ روڈ، گورنر کاٹیج روڈ، بازار سے چھاؤنی جانے والی سڑک اور چترال بائی پاس روڈ بھی کھنڈارات میں شامل ہونے کے قابل ہیں۔ دروش چترال روڈ برباد ہو چکی ہے۔ چترال بونی روڈکھنڈر کا منظر پیش کر رہی ہے۔ 2012ءمیں تعمیر ہونے والایوتھ کمپلیکس بھوت بنگلہ بن چکا ہے۔ چترال کے لیے گذشتہ صوبائی حکومت کا واحد منصوبہ چترال سپورٹس سٹیڈیم تعمیراتی کام مکمل ہونے سے پہلےکھنڈارات میں تبدیل ہوچکاہے۔ شکر ہے اس وقت کے صوبائی حکومت نے چترال کو دوسرا کوئی منصوبہ نہیں دیا۔ ورنہ وہ بھی آثارقدیمہ میں شمار ہونےکےقابل ہوتا۔ 2012ء کے سیلاب سے متاثرہ گرین لشٹ اویر پل کے کھنڈارات بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ 2012ءمیں جوڈیشیل کمپلیکس ، جس عمارت پر جغور کے مرکزی مقام پر کام شروع ہوا تھا وہ بھی ادھوراچھوڑدیا گیاہے، گویا کھنڈارات میں ایک بڑی عمارت کا اضافہ ہوا ہے بدقسمتی کی حد یہ ہے کہ وفاقی ترقیاتی پروگرام سےچترال کو کچھ نہیں ملا۔ صوبائی اے،ڈی،پی میں جو پیسے رکھے جاتےہیں، وہ سال گزرنے پر واپس کئے جاتے ہیں۔ ضلعی حکومتوں کو جو فنڈ دیا جاتا ہے ان کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں ملتی۔ این جی اوز پر این او سی کی پابندی لگاکر باہر سے آنے والی امدادکے راستے بند کر دئیےگئےہیں۔ اور 6سالوں میں انصاف کے نام پر چترال کوبے انصافی کے ذریعےکھنڈارات میں تبدیل کیا گیا ہے۔

 

Print Friendly, PDF & Email