نیا ضلع اور نئی تحصیلیں

صوبائی کابینہ نے اپر چترال کو ضلع کا درجہ دینے کی منظوری دی ہے۔ صوبائی حکومت دروش ، تور کھو ،موڑکھو میں نئی تحصیلوں کا نوٹیفیکیشن جاری کردیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے لوٹ کوہ کو بھی تحصیل کا درجہ دینے کا اعلان کیا تھا ابھی تک اس کا نوٹیفیکیشن نہیں آیا۔ اگر حا لات جوں کے توں رہے اور 2018 ء کے الیکشن سے پہلے ایک نیا ضلع اور تین نئے تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن وجود میں آگئے تو ضلع چترال میں ترقی کے بے شمار مواقع پیدا ہونگے،8ہزار نئی آسامیاں پیدا ہوں گی۔عوام کے مسائل ان کے گھر کی دہلیز پر حل ہونگے۔ اب تک لوگ مشرف اور بھٹو کو یاد کرتے تھے آگے جاکر عمران خان اور پرویز خٹک کو بھی اسی طرح یاد کریں گے تاہم شرط یہ ہے کہ ان کے اعلانات پر عمل درآمد ہوتا ہوا نظر آئے ۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ موجودہ حکومت کی مدت 5 ماہ رہ گئی ہے ۔ جنوری کے اختتام پر 4ماہ رہ جائیں گے ۔ صوبائی سطح پر سول بیوریو کریسی حکومت کا ساتھ دینے اور وزیر اعلیٰ کے اعلانات کو عملی جامہ پہنانے پرآمادہ نظر نہیں آتی ۔ ریشن کے بجلی گھر کی بحالی کا مسئلہ ڈھائی سالوں سے تعطل کا شکار ہے۔ریسکیو 1122 کا اعلان ہوا تھا،صوبائی سطح کی بیوریو کریسی نے چترال کو ریسکیو 1122کی سروس دینے میں اب تک لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔نئے ضلع اور تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن کے اعلانات کو عملی صورت دینے میں بیوریو کریسی کی رکاوٹیں موجود ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کو ان رکاوٹوں کا احساس اور اندازہ نہیں ہے۔دیگر سیاسی جماعتوں کو یہ رکاوٹیں اچھی طرح معلوم ہیں مگر وہ پی ٹی آئی کو ناکام دیکھنا چاہتی ہیں ، اس لیے خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں۔حکومت کے سامنے چترال کے لیے اعلان کردہ اقدامات کو عملی شکل دینے کا روڈمیپ بھی ہونا چاہئیے۔ روڈ میپ کی رو سے فروری کے پہلے ہفتے اپر چترال کے ڈپٹی کمشنر کا تقرر ہونا لازمی ہے۔تینوں تحصیلوں کے لیے افسروں کا تقرر ضروری ہے۔ ریشن بجلی گھر کی مشینری آنی چاہئیے۔ ریسکیو1122کاکم ازکم ایک ٹیلیفون،ایک دفتر اور ایک فائر بریگیڈ یا ایمبولینس نظر آنا چاہئیے۔مارچ سے لیکر جون تک تمام اقدامات کی جھلک عوام کو نظر آنا چاہئیے،ورنہ مخالفین کا وہ الزام درست ثابت ہوگا کو یہ اعلان نہیں محض”لولی پاپ”تھا۔

Print Friendly, PDF & Email