چھوٹے پن بجلی گھروں کا مستقبل

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے ہاتھوں4فروری 2018ء کو چترال میں گولین گول ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے نام سے 108 میگاواٹ بجلی گھر کے پہلے یونٹ کی 36 میگاواٹ بجلی کا افتتاح ہونے کے بعد چترال کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے چھوٹے پن بجلی گھروں کا مستقبل خطرے کی زد میں آگیا ہے۔
وزیر اعظم نے اس موقع پر اعلان کیا کہ نئے بجلی گھر سے پورے چترال کو بجلی دی جائے گی۔کوئی گھر اور کوئی محلہ اس بجلی سے محروم نہیں ہوگا۔ساتھ ساتھ یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ چترال پیسکو واحد تقسیم کا ر کمپنی ہوگی۔پیڈو کی ناکارہ لائینوں کا انتظام بھی پیسکو کے ہاتھوں میں دیا جائے گا۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ 1986ء سے 2017 ء تک چترال کی 32 وادیوں اور دور دراز علاقوں میں 50کلوواٹ سے لے کر 700کلوواٹ تک صلاحیت کے چھوٹے پن بجلی گھر لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بنائے گئے تھے اور کمیونیٹی کی ذمہ داری پر چل رہے تھے۔ان بجلی گھروں کی بجلی ،کمروں کی گرمائش اور کھانا پکانے سے لے کر آرہ مشین ،ویلڈنگ مشین اور آٹا مشین جیسی ٹیکنالوجیز میں بھی استعمال ہوتی تھی۔محمد خان اینڈ کمپنی کا 600کلوواٹ بجلی گھر لوگوں کی ضروریات پوری کرتا تھا۔کل ملا کر 12 میگاواٹ کے قریب بجلی ان چھوٹے بجلی گھروں سے پیدا ہوتی ہے۔ان بجلی گھروں کے ڈیزائن اور ان کے انتظام و انصرام پر آغاخان رورل سپورٹ پروگرام اور سرحد رورل سپورٹ پروگرام کو بین الاقوامی اعزازات یا ایوارڈز دئیے گئے تھے۔ کیا اب یہ سب کچھ وقت کے سیلاب میں بہہ جائے گا ؟
ترقی کی پائیدار حکمت عملی کا تقاضا یہ تھا کہ گولین گول کا 108 میگاواٹ بجلی گھر تیار ہونے سے پہلے چھوٹے پن بجلی گھروں کی بجلی گرڈ میں لائی جاتی اور یہ بجلی کے تقسیمی نظام کے ذریعے صارفین کو دینے کے لیے یوٹیلیٹی کمپنیوں کا معاہد ہ ہوجاتا ہے۔ اس طرح برسوں کی محنت ضائع نہ جاتی۔ اب بھی وقت ہے کہ اے کے آر ایس پی،ایس آر ایس پی اور محمد خان اینڈ کو سمیت تمام یوٹیلیٹی کمپنیوں کو ایک میز پر لا کر چھوٹے پن بجلی گھروں کی بجلی کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے منصوبہ بندی کی جائے تو یہ سارے بجلی گھر مستقبل میں محفوظ ہونگے۔بجلی بھی ایک نعمت ہے ،ایک اثاثہ ہے۔جس طرح ایک ایک پائی کی بچت سے دولت بنتی ہے اس طرح بجلی کی ایک ایک یونٹ کو بچا کر ہم توانائی میں خوود کفالت کی منزل کو پاسکتے ہیں۔
اس طرح ریشن ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی 4 میگاواٹ بجلی کو بھی بحال کر کے گرڈ میں شامل کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ اس میں غفلت کے نتائج اچھے نہیں ہونگے۔ اْمید ہے کہ ضلعی حکومت، ضلعی انتظامیہ ،عوامی نمائندے اور سول سوسائٹی کے ذمہ دار چھوٹے پن بجلی گھروں کا مستقبل محفوظ بنانے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں گے۔

Print Friendly, PDF & Email