ٹاؤن کی سڑکیں یا کھنڈرات

ان صفحات میں بار بار چترال ٹاؤن کے اہم مسائل کی طرف حکومت کی توجہ مبذول کروائی گئی ۔بعض مسائل حل بھی ہوئے مگر ٹاؤن کی ٹوٹتی پھوٹتی سڑکوں کا مسئلہ حل نہیں ہوا۔چترال بازار سے چھاؤنی کی طرف جائیں ،افیسر میس اور ڈی سی ہاؤس کی طرف رخ کریں ،گورنر کاٹیج کی طرف جائیں ۔گرلز کالج کا راستہ لے لیں ،ائیر پورٹ روڈ پر گاڑی ڈال دیں یا چترال یونیورسٹی کی طرف رخت سفر باندھ لیں ۔

چترال ٹاؤں کی سڑک دوسری صدی قبل از مسیح کے کھنڈرات کا نقشہ پیش کرتی ہے ۔ان سڑکوں پر چترال بھر کی اسّی ہزار آبادی اور چترال بھر کی پانچ لاکھ آبادی ہی سفر نہیں کرتی ۔ہزاروں کی تعداد میں سیاح بھی انہی راستوں پر سفر کرتے ہیں بلکہ سفر کا انگریزی لفظ استعال کریں تو Suffer کرتے ہیں ۔ یہی نہیں ان سڑکوں پر ہمارا حکمران طبقہ بھی سفر کرتا ہے ۔ہر افسر اور ہر حاکم وقت کوچترال ٹاؤن کی کسی سڑک کی مرمت کا خیال نہیں آتا ۔چترال کے عوام کا یہ مطالبہ کوئی مانتا ہی نہیں کہ عوامی سہولت کے لیے سڑکوں کی مرمت کی جائے ۔اب عوام کا مطالبہ یہ ہے کہ ہمارے مغل شہزادے ،ہمارے مغرور افیسر اور تکبر کی علامت بننے والے حاکمانِ وقت اپنی گاڑیوں کےلیے ،اپنی سہولت کے لیے چترال ٹاؤن کی سڑکوں کو کھنڈرات سے قابل استعمال سڑک بنانے پر توجہ دیں ۔ دُکھ کی بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت "خزانہ خالی ” کی راگ آلاپتی ہے ۔صوبائی حکومت کے پاس فرصت نہیں ۔ضلعی حکومت کے پاس فنڈ نہیں ۔اگر یہی صورت حال رہی تو عوام مجبورا ً باہر نکلیں گے ۔سی اینڈ ڈبلیو کے دفتر کو تالا لگا دیں گے ۔ اس کے بعد شاید ہمارے حکمرانوں کو احساس ہوگا کہ چترال ٹاؤن کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے ۔پاکستان سیٹیزن پورٹل اور صوبائی حکومت کے شکایات سیل پر کئی بار شکایات درج کی گئیں مگر مسئلہ حل نہیں ہوا۔ اب عوام چترال ٹاؤں کی سڑکوں کا مسئلہ بھی نیب ،اینٹی کرپشن اور احتساب کمیشن میں لے جانا چاہتی ہیں ۔ عوام کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ اگلا حادثہ ان سڑکوں پر ہوا تو ذمہ دار افیسروں کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائیگی۔

Print Friendly, PDF & Email