چترال کے حساس پولنگ اسٹیشن

2018 کے قومی انتخابات کی تیاریاں حتمی مراحل میں داخل ہورہی ہیں ۔چترال وطن عزیز کا منفرد ضلع ہے ۔جہاں قومی اسمبلی کا بھی ایک حلقہ اور صوبائی اسمبلی کا بھی ایک ہی حلقہ ہے۔14850مربع کلو میٹر رقبے پر پھیلے ہوئے ضلع میں جہاں انتخابی مہم ایک چیلنج ہے وہاں پر امن انتخابات کے انتطامات بھی الیکشن کمیشن کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں ۔افغانستان کے ساتھ ملی ہوئی 600 کلو میٹر طویل سرحد کے دیہاتی مقامات اور چترال کی چار تحصیلوں میں امن و امان کے قیام اور پر امن انداز میں پولنگ کے لیے حساس مقامات میں خصوصی سیکیوریٹی کی صورت میں بہتر انتظامات ناگزیر ہیں۔ماضیٔ قریب کے واقعات سے بخوبی پتہ لگایا جاسکتا ہے کہ چترال کو ایک طرف سے افغان طالبان اور داغش کے حملوں کا سامنا ہے ۔دوسری طرف سے تحریک طالبان پاکستان اور دیگر کالعدم تنظیموں نے بھی مختلف وجوہات کی بنا پر چترال کو ہدف بنایا ہوا ہے۔ افغانستان کے اندر بھارتی قونصل خانوں کی طرف سے چترال کو ٹارگٹ بنایا جاتا رہا ہے۔خاص طور پر انتخابی مہم کے دوران فرقہ ورانہ تقسیم اور اس تقسیم کے حوالے سے بعض گروہوں کی طرف سے دی گئی دھمکیوں کی رپورٹیں بھی منظر عام پر آ چکی ہیں ۔اس لیے چترال کے طول و عرض میں حساس مقامات اور دہشت گردی کے خطرے کی زد میں آنے والے پولنگ اسٹیشنو ں کی تعداد سو سے اوپر بتائی گئی ہے۔ضلعی انتظامیہ ،پولیس اور سیکوریٹی سے وابستہ اداروں کے لیے چترال کے حساس مقامات کا تحفظ ایک بڑا چیلنج ہے۔اس چیلنج سے عہدہ برا ہونے کے لیے الیکشن کمیشن کو مختلف مکاتب فکر کے علماء کا تعاون حاصل کرکے انتخابی ضابطہ ٔ اخلاق کی پابندی کو یقینی بنانا چاہیئے ۔نیز ضلعی انتطامیہ ،ضلعی پولیس اور سیکیوریٹی سے وابستہ اداروں کو بھی قبل از وقت انتظامات اور پیش بندیوں کے ذریعے ناخوشگوار واقعات کا سدباب کرنا ہوگا تاکہ الیکشن کے دن اور اس کے بعد چترال کی پرامن فضا پر کوئی آنچ نہ آئے ۔

Print Friendly, PDF & Email