ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال کی حالتِ زار

سوشل میڈیا پر ڈسٹرکٹ ہیڈ کواٹر ہسپتال چترال میں کوڑا کرکٹ کے ڈھیر اورسیوریچ لائنوں کی خرابی کے ساتھ غسل خانوں کی ناگفتہ بہہ حالت کی تصاویر آنے کے بعد حکومت کی طرف سے کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔یہ پہلا موقع نہیں کہ کسی نے ڈی ایچ کیو ہسپتال کی حالت ِ زار کی طرف حکومت کی توجہ دلائی ہو۔پہلے بھی سماجی ، سیاسی اورعوامی حلقوں نے مختلف ذرائع سے حکومت کی نوٹس میں یہ بات لائی ہے کہ ضلع چترال کا سب سے بڑا سرکاری ہسپتال بد انتظامی اور عدم توجہی کی مثال بن چکا ہے اور صحت کی سہولیات کے حوالے سے حکومت کے دعوﺅں کی نفی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ ہسپتال کے غسل خانے بند پڑے ہیں اور سیوریج لائنیں خراب ہیں۔ہسپتال کے فضلے کو ٹھکانے لگانے کا کوئی معقول انتظام نہیں۔اگر ظاہر خرابیوں کا یہ حال ہے تو اس کے کلینکس، وارڈز ،لیبارٹریز اور دیگر سہولیات کا کیا حال ہوگا؟ یہ حقیقت ہے کہ چترال کی منتخب قیادت،کسی ایم این اے،ایم پی اے یا ضلعی ناظم نے کبھی ڈی ایچ کیو ہسپتال کی طرف توجہ نہیں دی۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ صوبائی حکومت کا کوئی افسر ڈی ایچ کیو ہسپتال کا اچانک معائنہ کبھی نہیں کرتا۔ صوبائی حکومت کو ہسپتال کے اندرونی نظم و نسق کے بارے میں درست رپورٹیں کوئی نہیں بھیجتا۔ اس وجہ سے 2006 ءمیں کیٹیگری بی کا درجہ ملنے کے باوجود اس ہسپتال کو کٹیگری سی کی سہولیات بھی نہیں دی گئیں۔کارڈیالوجی ، آئی یونٹ اور برن یونٹ کی عمارتیں مکمل ہونے کے باوجود بند پڑی ہیں۔یورالوجی اور ارتھو پیڈکس یونٹ پر توجہ نہیں دی گئی۔کوڑا کرکٹ کو جلانے کے لیے مشین لائی گئی لیکن اس کو جلانے کا بجٹ نہیں ہے۔ سیوریج لائنوں کی مرمت کے لیے فنڈ نہیں ہے۔ان سطور کے ذریعے ارباب اختیارکی خدمت میں درخواست ہے کہ ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال چترال میں صفائی کا انتظام بہتر بنائیں۔سیوریج لائینوں کی مرمت اور انتظامی مسائل کو حل کرنے کے لیے خصوصی ٹاسک فورس قائم کریں۔نیز کارڈیالوجی ،آئی اور برن یونٹ کو کھولنے کے لیے اسپیشلسٹ ڈاکٹر اور اسٹاف مہیا کرنے کے لیے بالائی حکام کی نوٹس میں لے آئیں۔ بقول شاعر

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خا ک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

Print Friendly, PDF & Email