گوادرمیں دھرنے کی وجوہات اور تازہ ترین صورتحال

تحریر : اعظم الفت بلوچ

بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں “بلوچستان کو حق دو تحریک” کا دھرنا بیسویں روز بھی جاری رہا، دھرنے میں کراچی سے بلوچ خواتین اور دیگر علاقوں سے سینکڑوں کی تعداد میں لوگ شرکت کرتے ہوئے اظہار یکجہتی کی ہے۔

دھرنے سے خطاب کرتے مقررین نے کہا کہ اپنے مطالبات کی منظوری اور ان پر عمل درآمد کرانے تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہاں پر بیٹھے کسی شخص کو کچھ نقصان ہوا تو اس کی ذمہ داری موجودہ حکومت اور اسے لانے والی بی این پی مینگل اور جمعیت علمائے اسلام پر عائد ہوگی۔

دھرنے کے روح رواں مولانا ہدایت الرحمان بلوچ نے کہا کہ صوبائی وزراء جھوٹ پہ جھوٹ بول رہے ہیں، میڈیا کے سامنے کہتے ہیں کہ مطالبات تسلیم ہوئے ہیں لیکن اب تک کسی ایک تسلیم شدہ مطالبہ پر عملدرآمد نہیں ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دھرنے کے خلاف کسی کارروائی کے خدشے کے پیش نظر گزشتہ شب مولانا ہدایت الرحمان نے شرکا سے کہا تھا کہ اگر کوئی جانا چاہتا ہے تو اسے اجازت ہے لیکن وہ خود مطالبات پر عملدرآمد تک دھرنا ختم نہں کریں گے خواہ اس کے لیے انہیں اکیلا ہی کیوں نہ بیٹھنا پڑے۔

مقامی ذرائع کے مطابق بلوچستان پولیس کی بھاری نفری دھرنے کے مقام پر پہنچ گئی۔ مظاہرین نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے مظاہرین کو گھیرے میں لے لیا ہے۔

گوادر شہر سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ کسی احتجاج کے تناظر میں پولیس اہلکاروں کی یہ سب سے بڑی تعیناتی ہے۔ محکمہ پولیس کے ایک نوٹیفیکیشن کے مطابق گوادر میں باہر سے مجموعی طور پر 5500 پولیس اہلکاروں کی تعیناتی کے احکامات جاری کیے گئے ہیں، ریگولر پولیس کے اہلکار جعفرآباد، مستونگ، زیارت، پنجگور، خضدار، تربت، نصیرآباد ،قلات ،کچھی ، خاران ،سبی اور لسبیلہ سے بھیجے گئے ہیں۔ گوادر شہر اور ضلع گوادر کے دیگر علاقوں میں ان کی تعیناتی کا عمل شروع ہوگیا ہے۔

اب تک مذاکرات کے چار دور ہونے کے باوجود حکام اس معاملے کو پرامن طریقے سے نمٹانے میں ناکام ہوئے۔

گوادر کے عام لوگوں بلکہ مکران کے باسیوں کی تحریکی کاوشیں قابل ذکرہیں۔ اگرچہ حکومت نے حق دو تحریک کے چار مطالبات کے حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے تاہم دھرنے کے شرکا ان پر عملدرآمد سے مطمئن نہیں ہیں۔

دریں اثناء وزیر اعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کی زیر صدارت مکران ڈویژن کے ہیڈ کوارٹر تربت میں اعلیٰ سطحی اجلاس میں ٹوکن سسٹم کے خاتمے سمیت سرحدی تجارت کے حوالے سے اہم فیصلے کیے گئے تاہم دھرنے پر موجود لوگوں کو متوجہ کرنے میں ناکام رہے۔

یہ دھرنا تعلیم، صحت، پانی اور بجلی کی فراہمی کے لیے شروع ہوا تھا مگر اب اس کا دائرہ وسیع ہو گیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ مولانا ہدایت خواتین کی بڑی تعداد کو ریلی میں لانے میں کیوں کامیاب ہوئے؟ کس چیز نے خواتین کو تحریک کی حمایت پر مجبور کیا؟

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ 15 نومبر کو دھرنا شروع ہونے کے بعد سے گوادر میں خواتین کی ریلی اپنی نوعیت کی تیسری ریلی تھی، اس سے قبل عام لوگوں اور بچوں کی بڑی ریلیاں نکالی گئی تھیں لیکن خواتین کی ریلی سب سے منفرد تھی۔

بلوچستان کے قبائلی معاشرے میں خواتین کی اتنی بڑی تعداد میں گھر سے نکلنا ایک تاریخی واقعہ ہے اور یہاں کی قوم پرست جماعتوں کے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔

حقوق کے حصول کی اس مہم میں نہ تو کوئی نواب ہے نہ سردار زادے اور نہ ہی نام ونہاد مڈل کلاس کا مستانہ نعرہ بلند کرنے والی نیشنل پارٹی۔

اگر تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہمیشہ نام نہاد قوم پرست اور سردارونواب زادے ہر تحریک کے لئے خطرہ بنے رہے، گوادر میں اتنی بڑی تعداد میں خواتین اس سے پہلے کبھی بھی احتجاجی ریلیوں میں نہیں نکلی تھیں اور نہ ہی بلوچستان کے کسی دوسرے حصے میں اس کی نظیر ملتی ہے۔

گوادر کے پاس معاش کے دو بڑے ذرائع ہیں جن میں ماہی گیری اور ایران کے ساتھ سرحد پار تجارت شامل ہے اور اس وقت دونوں شعبے تباہ ہو چکے ہیں۔

ٹرالروں کے ذریعے غیر قانونی ماہی گیری جبکہ ٹوکن سسٹم کے نام پر حکومتی پابندیوں سے ایران کے ساتھ سرحدی تجارت متاثر ہوئی ہے۔

نوٹیفکیشن پر عمل درآمد کے چار مطالبات میں بلوچستان کے علاقائی پانیوں میں ٹرالروں کی ماہی گیری پر پابندی اور ان کے خلاف کارروائی، سرحدی نقل و حمل کی نگرانی ضلعی انتظامیہ کے سپرد کرنا شامل ہے۔ گارڈز ضلعی انتظامیہ کی طرف سے لوگوں کی گاڑیوں کو بچانے اور گوادر میں امن و امان کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر شراب کی دکانوں کو دوبارہ بند کرنے میں مدد فراہم کرنے کے انچارج تھے۔

ان نوٹیفکیشنز کے اجراکے بعد دھرنے کے شرکا نے شاہراہیں بند کرنے کے اعلان پر عمل درآمد کا فیصلہ موخر کرنے کا اعلان کیا تاہم دھرنا ختم نہیں کیا۔

مظاہرین کے سب سے اہم مطالبات لوگوں کے ذریعہ معاش اور روزگار سے متعلق ہیں۔ اورماڑہ میں بلوچستان کے پانیوں میں 30 سے 40 ٹرالر گزشتہ روز بھی مچھلیاں پکڑتے رہے اور مقامی ماہی گیروں کے جال کاٹتے رہے۔

سرحدی تجارت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور نوٹیفکیشن کے مطابق ٹرانسپورٹ کی نگرانی ضلعی حکومت کے سپرد نہیں کی گئی جبکہ ٹوکن سسٹم پہلے کی طرح جاری ہے۔

مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ ٹوکن سسٹم کو مکمل طور پر ختم کرکے سرحدی تجارت بحال کی جائے۔ بہتر ہے کہ معاش کی تباہی کے اسباب کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے جائیں، ورنہ عوام کے پاس احتجاج کے سوا کوئی چارہ نہیں۔

The post گوادرمیں دھرنے کی وجوہات اور تازہ ترین صورتحال appeared first on .

Print Friendly, PDF & Email