"سٹیٹس کو” اور تبدیلی

ہم روز نظام کی تبدیلی کے بارے میں سنتے ہیں۔ کچھ سیاست دان اور تجزیہ کار کہتے ہیں کہ تبدیلی کے راستے میں سٹیٹس کو کی جماعتیں یا طبقے رکاوٹ ہیں مگر ہم میں سے اکثر نے اس کے بارے میں سوچا تک نہیں ہے کہ نظام میں تبدیلی کیوں آنی چاہیے اور سٹیٹس کو کیا ہے؟ اگر آپ نے بھی ابھی تک اس سے متعلق نہیں سوچا ہے چلو آج بتاتے ہیں کہ سٹیٹس کو کیا ہے؟ اور تبدیلی کے راستے میں کیوں رکاوٹ ہے؟ statusquo دو الفاظ کا مرکب ہے status حیثیت اور quo جمود۔۔۔ اصطلاح میں "سٹیٹس کو” چند مخصوص طبقات کا اجارہ دارانہ اور استحقاق پر مبنی ایسا سیاسی ،سماجی ، اور معاشی نظام ہے جو یا تو تبدیلی (ارتقاء و انقلاب) کا منکر ہوتا ہے یا تبدیلی کو محض ایک مخصوص سانچہ ہی میں پسند کرتا ہے۔ایسا سانچہ جس میں ان طبقات کے مخصوص اجارہ دارانہ اور پیوستہ مفادات کو کوئی زد نہ پہنچے۔ سادہ الفاظ میں سٹیٹس کو سے مراد وہ بااثر طبقہ یا معاشرے کے چند بااثر افراد کا گروہ جو مل کے ملک کا سیاسی ، سماجی اور معاشی نظام چلاتے ہیں اور جو تبدیلی نہیں چاہتے۔ معاشرے میں جمود کی خواہش رکھتے ہیں، تبدیلی اگر آئے بھی تو وہ ان کی مفاد میں ہو۔ پاکستان میں سٹیٹس کو کے نمائندہ طبقات یہ ہیں۔ جاگیر دار، سیٹھ، سرمایہ دار ،بیورو کریسی، مولوی یا مذہبی رہنمااورجاگیردار۔
انسان کو زندہ رہنے کے لیے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک انسان کی معیشت کا زیادہ تر دارومدار زراعت پر تھا اور آج بھی کسی حد تک ہے۔ کھانے کی اکثر چیزیں کھیتی باڑی کے ذریعے کھیتوں سے حاصل کی جاتی ہے۔ اس کے علاؤہ انسان کو ہمیشہ خوب سے خوب تر کی تلاش رہی ہے اور اچھا خاصا کماکے دوسروں کو زیر کرنے کی خواہش بھی اور اسی خواہش کی تکمیل کے لیے معاشرے کے کچھ ہوشیار اور چالاک لوگ وقت کے بادشاہوں کے ساتھ مل کے سینکڑوں ایکڑ اراضی پہ قبضہ جما کر غریب لوگوں کو محکوم بنانے میں کامیاب ہوئے۔ پاکستان بننے کے بعد بھی یہی لوگ انہی زمینوں پہ قابض رہے اور غریب طبقہ انکے زیر اثر دو وقت کی روٹی کے لیے ان کا محتاج رہ کر ان کی خدمت کرتا رہا۔اسی وجہ سے آج بھی پنجاب ، سندھ، بلوچستان اور کے پی کے کے دیہات بلکہ فاٹا میں بھی زیادہ تر زمینوں پہ جاگیرداروں، وڈیروں، چودھریوں ، نوابوں، خانوں اور ملکوں کا قبصہ ہے، جبکہ ان کے دیہات میں رہنے والے اکثر لوگ ان کے مزارع ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ طبقہ (جاگیردار ) کافی موثر طبقہ ہے اور پاکستان کی اسی طرز حکمرانی میں بھی زیادہ تر ان کا عمل دخل ہے،تبدیلی ان کے لیے خطرناک ہے، اس لیے یہ جمود کے حامی ہیں اور سٹیٹس کو کا نمائندہ۔ سیٹھ یا سرمایہ دار یہ وہ طبقہ ہے جن کی بڑی بڑی پرائیویٹ کمپنیاں ، کارخانے اور فیکٹریاں ہیں، انھیں بھی اکثر حکومتی آشیرباد حاصل ہوتی ہے، یہ اکثر کاروباری افراد ہیں انھیں بھی اپنے کاروبار کو فروغ دینے کے لیے حکومتی سرپرستی کی ضرورت ہوتی ہے، یہ طبقہ اپنے مخالف کے ساتھ مقابلے کی دوڑ میں ہوتا ہے، یہ اپنے کاروبار کو فروغ دینے کے لیے اقتدار کی کرسی پہ اپنے ہی افراد کو دیکھنا چاہتے ہیں اور مقتدر طبقہ بھی اپنے ہی منظور نظر طبقے کو نوازتا ہے۔ یہ روز بروز امیر سے امیر تر ہوتے جارہے ہیں، اور موجودہ نظام سے کافی حد تک خوش ہیں۔ بیوروکریسی، بیورو کریسی دراصل فرانسیسی لفظ ہے اس سے مراد ایسی عاملہ یا انتظامیہ جس کا کام ضابطہ پرستی کے باعث طوالت آمیز ہو۔ اس اصطلاح کو اٹھارھویں صدی میں فرانس میں وضع کیا گیا جب کہ بعض افراد کو نوابی خطابات دے کر انھیں سرکاری عہدوں پر فائز کر دیا گیا تھا۔ نپولین کے دور حکومت میں سرکاری محکموں کو بیورو کہا جاتا تھا اور سرکاری عہدے داروں کو بیوروکریٹ۔ یعنی بیورو کریٹ سے مراد وہی سرکاری عہدیدار جو بڑے بڑے بنگلوں میں رہتے ہیں، بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے ہیں اور ریاستی قوانین کو اپنی مرضی کے مطابق بنا کر مراعات وصول کر ر ہے ہیں ، بیورو کریسی کی ہمارے ہاں دو قسمیں ہیں، سول و ملٹری بیورو کریسی، سول بیورو کریسی میں تمام اداروں کے بڑے بڑے افیسرز، ججز، انتظامی امور کے سربراہ وغیرہ سب اس میں آتے ہیں، ریاستی مشینری چلانے میں سب سے بڑا ہاتھ ان کا ہے ،قوانین یہی وضع کرتے ہیں، سب کچھ اپنے لیے لیکر عوام کو اتنا دیتے جو ان کی بقاء کے لیے کافی ہو، ان کے ساتھ ملٹری بیوروکریسی ہے ، ملٹری کی حکومتی امور میں مداخلت سے کون واقف نہیں یہ سب سے با اثر طبقہ ہے، پاکستان میں سویلینز سے زیادہ فوج کی ہی حکومت رہی ہے، تبدیلی بیوروکریسی کے لیے بھی سود مند نہیں یہ طبقہ بھی جمود کا سب سے بڑا حامی ہے اور سٹیٹس کو کا سب سے بڑا نمائندہ۔ مذہبی طبقہ، انسان نے ابتدا ہی سے خود کو صرف مادی وجود نہیں سمجھا۔اسے ہمیشہ یہ ادراک رہا کہ انسان جسم سے بڑھ کر بھی کچھ ہے۔اس کا ایک وجود اس کے سوا بھی ہے۔اسے آپ روحانی کہہ لیں، نفسیاتی قرار دیں یا مذہبی۔مادی وجود کی طرح، اس وجود کی زندگی اور بقا کے بھی کچھ مطالبات ہیں۔مذہب انہی مطالبات کا جواب ہے۔اس مطالبے نے مذہبی طبقے کو وجود بخشا۔ انسان نے اپنی روحانی ضروریات کے لیے اس طبقے سے رجوع کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ چاروں طبقات منظم ہوئے اور انہوں نے انسانوں کو اپنا غلام بنا لیا۔یہ طبقے قوت کے مرکز بن گئے۔عام آدمی کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہ رہا کہ وہ اپنی سیاسی، مذہبی اور معاشی خود مختاری کو ، محض بقا کے لیے،ان کے ہاتھوں میں رہن رکھوا دے۔اسے دو وقت کی روٹی اسی وقت مل سکتی تھی اگر وہ جاگیر دار کا مزارع بن جائے۔اس کا کام یہ ہے کہ وہ جاگیر دار کے لیے آناج کے ذخائرمیں اضافہ کرتا رہے یا پھر اسے سمجھایا گیا کہ وہ اپنا نظام زندگی چلانے کے لیے سرمایہ دار کا محتاج ہے وہ اس کے ساتھ ملازمت کرکے اس کے آمدن کو بڑھاتا رہے اور صلے میں اسے دو وقت کی روٹی ملے گی ورنہ وہ اسے ملازمت سے نکال دے گا، یا سرکار کی ملازمت کے نام پر بیوروکریٹس اور افسروں کے لیے عیاشی کا سامان مہیا کرکے اپنے لیے بقا کی جنگ لڑے یا پھر روحانی اور نفسیاتی سکون سمیت بعد از مرگ زندگی میں کامیابی کے لیے مذہبی رہنماؤں کے احکامات کا تابع ہو، اور مذہبی رہنما اپنے سیاسی و مادی ضروریات کی تکمیل کے لیے وقتاً فوقتاً اسے استعمال کرتا رہے، بصورت دیگر روحانی کرب میں مبتلا ہوجائیگا، لہٰذا مذکورہ بالا ان عوامل کی بنیاد پہ عام آدمی سے اس کے بنیادی حقوق چھین لیے گئے اور وہ ان بااثر طبقوں کی غلامی میں سسک سسک کے جی رہا ہے ، یہ مذکورہ بالا بااثر طبقے جمود میں خوش ہیں، یا کبھی تبدیلی نہیں چاہیں گے یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ عام آدمی باشعور ہو ان کی زندگی میں تبدیلی آئے، یہی طبقے سٹیٹس کو کے نمائندے ہیں ، اور سٹیٹس کو سے یہی مراد ہے اور یہی طبقے نظام میں تبدیلی نہیں چاہتے ، نظام کی تبدیلی عام آدمی کے لیے ناگزیر ہے مگر اسے سمجھائے کون کہ تبدیلی خود نہیں آتی لانی پڑتی ہے۔

Print Friendly, PDF & Email