تمعہ بسالت اور چترال

تمعہ بسالت ایک فوجی اعزاز ہے جو دوران ملازمت ایک فوجی جوان کو اچھی یا غیر معمولی کارکردگی کی بنیاد پہ آرمی چیف کی سفارش پہ صدر مملکت کی طرف سے دیا جاتا ہے۔ فوجی اعزازات عموماً میدان جنگ کے کارناموں کو دیکھتے ہوے دی جاتی ہے اس میں عہدہ یا سفارش نہیں بلکہ خدمت دیکھی جاتی ہے۔ چترال میں تمعۂ بسالت کے حوالے سے معروف شاعر امین الرّحمٰن چغتائی صاحب کا ایک شعر مشہور ہوا تھا۔
” اوا فخر ملک و ملت اوا تمعہ بسالت
کہ بیسیر مہ دی تہ شہرا کورا دور ای جو کنالو”
(مجھے بھی تمعہ بسالت مل جاتی اور فخر ملک و ملت کا لقب بھی ملتا۔ اگر میں بھی کسی بڑے شہر کا باسی ہوتا)
امین صاحب کا شکوہ بجا ہے کہ علاقے کی دور افتادگی اور پسماندگی کی وجہ سے امین چغتائی کی صلاحیتیں اور ان کی شاعری کو وہ پزیرائی نہیں ملی۔ اس شعر میں تمعۂ بسالت شعر کی خوبصورتی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ ورنہ امین صاحب فوجی اعزاز کا طالب تو نہیں یا انہیں بھی پتہ ہے چترالی فوجی (نیم فوجی دستے کے ) جوانوں کو بھی اس اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ ایسے ہی کچھ سال پہلے چترال سکاؤٹس کے جے سی او مس میں ایک تصویر دیکھنے کو ملی۔ تصویر کے نیچے لکھا ہوا تھا صوبیدار میجر جان بادشاہ TBT۔ اور پتہ چلا کہ یہ صوبیدار میجر صاحب 1960 میں ریٹائر ہوچکے تھے، اور سید آباد کے نیشنل پارٹی کے رہنما سید مظفر حسین جان صاحب کے دادا تھے۔ میں سوچنے لگا کہ 1960 سے بھی پہلے جان صاحب کو تمعہ بسالت کیسے ملی۔۔ تحقیق کے دوران پتہ چلا کہ جان صاحب 1948 پاک انڈیا جنگ میں شریک تھے چترال سکاؤٹس کی طرف سے، اور یہ بھی پتہ چلا کہ گلگت بلتستان کی جنگ آزادی کے مجاہدین میں سے ایک غازی حوالدار ریٹائر نور فتح شاہ سکنہ چرون اویر بقید حیات ہیں ( یاد رہے سات آٹھ سال پہلے کی بات ہے غازی نور فتح شاہ اب اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں ) تو میں ان سے ملنے چرون اویر پہنچا۔ وہاں اس زمانے کے ریٹائر صوبیدار شیرغضب شاہ اور غازی نور فتح شاہ المعروف مس حوالدار بابا سے ملاقات ہوئی۔ تعارف کے بعد پتہ چلا وہ میرے والد صاحب کو بھی جانتے بلکہ صوبیدار شیر غضب شاہ میرے والد صاحب کے استاد رہ چکے تھے۔ بڑی گرمجوشی سے ملے۔ باتوں باتوں میں موضوع کو میں چھیڑا مس حوالدار بابا کو اللہ تعالیٰ نے مضبوط حافظے سے نوازا تھا۔ وہ واقعات گویا اسی وقت اسکرین کے سامنے ہو اور مس حوالدار بابا اسکرین دیکھ کے قصہ سنا رہا ہو۔ آگے سنیے بابا کی اپنی زبانی۔
1948 کی جنگ آزادی کے دوران سکردو کے ایک سیکٹر میں پہاڑی چوٹی پہ ایک پوسٹ تھا اونزبوری پیکٹ جس پہ قبضہ کرکے تین مہینے تک ہم وہاں ڈیوٹی دیتے رہے اس دوران دشمن کے کئی حملے ہم نے پسپا کیے۔ تین مہینے بعد ہمارا تبادلہ ہوا اور گلگت کے مقامی فورس نے چارج سنبھال لی، ابھی دو دن ہی گزرے تھے ہم دو ڈھائی گھنٹے کی مسافت پہ سیکٹر ہیڈ کواٹر میں ہی موجود تھے، کہ مقامی فورس والے پیکٹ خالی چھوڑ کے واپس آگئے اور پیکٹ پہ دشمن کا پھر سے قبضہ ہوا۔ ہمارے ساتھ ہمارے پلاٹون کمانڈر صوبیدار جان بادشاہ صاحب تھے۔دوپہر کے وقت ایریا کمانڈر کرنل طفیل صاحب ( نام ہوسکتا ہے مختلف ہو ) کا فون آیا۔ سلام دعاء کے بعد جان صاحب سے کہا کہ چترالیوں کو میرا سلام۔ اس کے بعد اونزبوری پیکٹ سکردو کی دفاع کیلیے بہت ہی اہمیت کا حامل ہے جتنا جلدی ہو سکے دوبارہ قبضہ کرنے کی ضرورت ہے۔ جان صاحب احکامات لینے کے بعد چترالی پلاٹون فال ان کیا۔ دن دیہاڑے دوپہر دو بجے اللہ تعالیٰ کا نام لیکر ہم روانہ ہوئے۔ پلاننگ کے مطابق پوسٹ سے دو تین سو میٹر کے فاصلے پر پہنچ کے ہم پوسٹ کے اردگرد پھیل گئے اور آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگے۔ آگے سے کوئی مزاحمت نہیں ہوئی۔ قریب پہنچ کے نعرہ تکبیر کا نعرہ لگاتے ہوے پوسٹ پر حملہ کردیا۔ اس طرح دوپہر کے وقت حملہ ان کے لیے بالکل غیر متوقع تھا، وہ حواس باختہ ہوکے بھاگنے لگے۔ کچھ ان میں سے جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہوے، زیادہ تر کو ہم نے ماردیا۔ اور یوں پوسٹ پہ دوبارہ قبضہ کرلیا، اور صوبیدار صاحب کو اس کارکردگی کی بنیاد پہ تمعہ بسالت سے نوازا گیا ” قارئین! کہنے کو تو یہ چند الفاظ ہیں مگر اس طرح جان ہتھیلی پہ رکھ کر دشمن کے اندر گھس کے مارنا دفاع وطن کیلیے دئے گیے عظیم کارناموں میں سے ایک ہے، اور چترال سکاؤٹس کو اسی جنگ میں فتح سکردو سمیت سب سے زیادہ علاقہ دشمن کے قبضے سے چھڑانے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اور یوں صوبیدار جان بادشاہ پہلے چترالی ہیں جنھیں فوجی اعزاز تمعہ بسالت سے نوازا گیا۔ ہمیں اپنے ہیروز پہ فخر ہے جن کی قربانیوں سے یہ ملک وجود میں آیا اور اب تک اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے قائم و دائم ہے۔ انشاء اللہ قیامت کی صبح تک قائم رہیگا۔ جان صاحب کے علاؤہ ایک اور چترالی آنریری لفٹنٹ شیر اعظم صاحب کو بھی تمعہ بسالت سے نوازا گیا ہے اس کا تزکرہ انشاء اللہ اگلے کالم میں۔

Print Friendly, PDF & Email