قبلہ اوّل کو صلاح الدین ایوبی کی تلاش

تاریخی اعتبار سے اگر دیکھا جائے  تومسجد اقصیٰ کے ساتھ مذہبی تعلق ووابستگی کے دعوے میں یہودی اور مسلمان، دونوں فریق بنیادی طور پر سچے ہیں۔ یہودیوں کے لیے یہ عبادت گاہ قبلہ ومرکز اور ان کی دینی ودنیاوی عظمت رفتہ کے نشان کی حیثیت رکھتی ہے ۔ دعا اور مناجات کے لیے وہ اسی کی طرف رخ کرتے ہیں اور اس میں سلسلہ عبادت کی احیا کی تمنائیں بر آنے کے لیے صدیوں سے ان کے سینوں میں تڑپ رہی ہیں۔
مسلمانوں کی وابستگی اور عقیدت بھی اس عبادت گاہ کے ساتھ معمولی نہیں ہے ۔ یہ مقام انبیاے بنی اسرائیل کی ایک یادگار ہے جن پر ایمان اور جن کا احترام وتعظیم مسلمانوں کے اعتقاد کا جزو لاینفک ہے۔ انھوں نے اس وقت اس عبادت گاہ کو آباد کیا جب یہود ونصاریٰ کی باہمی آویزشوں کے نتیجے میں یہ ویران ہوگیا تھا۔ ان کا یہ عمل تمام مذہبی، عقلی اور اخلاقی معیارات کے مطابق ایک نہایت اعلیٰ روحانی اور مبارک عمل ہے جس پر وہ جتنا بھی فخر کریں، کم ہے۔
فریقین کے تعلق ووابستگی کے دعوے کو درست مان لینے کے بعد اب سوال یہ ہے کہ اس پر تولیت کا حق کس فریق کو ملنا چاہیے اور فریقین میں سے کس کے حق کو کس بنیاد پر ترجیح دی جائے؟ اس کیلیے مسجد اقصی کی تاسیس پر ایک نظر ڈالی جائے۔
مسجد اقصیٰ کی تعمیر کے ادوار کے  بارے میں مختلف روایات ہیں کہ مسجد اقصیٰ کا مؤسّسِ اوّل کون ہے؟ مگر ہمارے لیے سب سے معتبر روایت بخاری شریف ہی کی ہے۔
صحیح بخاری میں حضرت ابو ذررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ روۓ زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد تعمیر کی گئی تھی؟ آپ نے فرمایا:مسجد حرام۔ انھوں نے سوال کیا کہ اس کے بعد؟ آپ نے فرمایا: مسجد اقصیٰ۔ انھوں نے دوبارہ سوال کیا کہ ان دونوں کی تعمیر کے مابین کتنا عرصہ تھا؟ آپ نے فرمایا: چالیس سال۔ (بخاری، )
اس حدیث پاک سے صریحاً معلوم ہوجاتا ہے کہ جس طرح ابو الانبیا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بڑے بیٹے کے ساتھ مل کر مکہ مکرمہ میں بیت اللہ یعنی مسجد الحرام کی بنیاد رکھی، بعینہٖ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے دوسرے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام کے ساتھ مل کر چالیس سال کے بعد بیت المقدس یعنی مسجد الاقصی کی بنیاد رکھی۔
مکہ مکرمہ کا قبلہ عالمگیر اور دائمی قبلہ تھا جبکہ بیت المقدس کا قبلہ بنی اسرائیل اور بعد میں امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک محدود مدت تک قبلہ رہا۔انبیا بنی اسرائیل مسجد الاقصیٰ میں نماز اور دوسری عبادت کرتے تھے ، تاہم احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیا بنی اسرائیل حج کے لیے بیت اللہ یعنی مکہ مکرمہ تشریف لاتے رہے۔گویا یہ دو مراکز روئے زمین پر اللہ جل جلالہ کے گھر رہے ہیں اور مرجع الخلائق رہے ہیں۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے نبوت سے سر فراز فرمایا تو ایک رات آپؐ  کو اپنے عجائبات کی سیر کروانے کے لیے مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ لے گئے، جہان سے وہ عالم بالا یعنی عالم غیب کی سیر کے لیے تشریف لے گئے۔
اس عہد میں دنیا میں اللہ کے دو ہی گھر موجود تھے (1) مسجد الحرام(2) مسجد الاقصیٰ۔ تیسرا مقام کوئی نہیں تھا ۔مدینہ منورہ میں اس دور میں مسجد نبویؐ بنی ہی نہیں تھی۔قرآن کریم جب عہد قدیم کی اقوام کا تذکرہ کرتا ہے تو دو ہی مساجد کا ذکر کرتا ہے یعنی مسجد الحرام اور مسجد الاقصیٰ۔
چونکہ قوم یہود بنی اسرائیل کی باقیات تھی اور خود کو اس دور میں بھی اللہ کی منتخب کردہ قوم سمجھتی تھی اورقوم یہود خود کو انبیا کرام علیھم السلام کی وارث سمجھتی تھی، لہذا اللہ نے اس کو آخری موقع دیا تاکہ وہ من حیث القوم کفر و بغاوت کو چھوڑ کر اللہ کے مطیع بن جائے ۔لیکن قوم یہود نے جب بنی اسرائیل کی بجائے بنی اسماعیلؑ میں سے پیغمبر آخر الزمان کو مبعوث پایا تو ایک بار پھر اپنی کینہ پروری،قومی تعصب اور جاہلانہ تفاخر کے سبب اللہ کے کلام اور احکام کا انکار کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو آخری نبی ماننے سے انکار کر دیا۔اس طرح قوم یہود نے آخری موقع بھی کھو دیا اور من حیث القوم دائرہ اسلام سے باہر ہو گئے۔ لہذا قوم یہود قبلہ اوّل کی تولیت کا اخلاقی و قانونی حق تو کھو چکے ہیں اور یہ حق صرف مسلمانوں کے پاس ہے۔۔۔۔ تاہم مسلمانوں نے فاروق اعظم عمر بن خطاب رضی اللہ کے دور غالبا پندرھویں ہجری میں اسے فتح کیا۔
حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں  ابو عبیدہ بن الجراح نے 15 ھ میں بیت المقدس کا محاصرہ کیا اور ان کے سامنے اپنا پیغام رکھا، نہ ماننے کی صورت میں قتل اور صلح کی صورت میں جزیہ اور خراج کا حکم سنایا، تو وہ ایک شرط پر صلح کے لیے تیار ہوگئے کہ خلیفہٴ وقت صلح کے لیے خود تشریف لائیں۔ حضرت ابوعبیدہ نے حضرت عمرؓ کو خط لکھ کر ساری صورتحال سے آگاہ کیا تو حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ کے مشورہ سے بیت المقدس جانے پر راضی ہوگئے، یوں حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں مسجد اقصیٰ اسلام کے سائے میں آگئی۔ حضرت عمرؓ نے مسجد کو صاف کروایا اور وہاں پر مسجد تعمیر کرالی، جس کو مسجد عمؓر کہتے ہیں۔ تب سے لیکر یہ مسلمانوں کے قبضے میں تھی البتہ پہلی صلیبی جنگ کے وقت 1099 میں عیسائیوں نے اس پر قبضہ کرلیا۔ اور تقریباََ اٹھاسی سال بعد اس امت کے عظیم ہیرو صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے 1187 میں دوبارہ قبلہ اوّل کو عیسائیوں کے قبضے سے نجات دلائی۔ اس کے بعد پہلی جنگ عظیم دسمبر 1917ء کے دوران انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کر کے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔ یہود و نصاریٰ کی سازش کے تحت نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دھاندلی سے کام لیتے ہوئے فلسطین کو  عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا اور جب 14 مئی 1948ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا تو پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ اس کے جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر قابض ہو گئے، تاہم مشرقی یروشلم (بیت المقدس) اور غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آ گئے۔ تیسری عرب اسرائیل جنگ (جون 1967ء) میں اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا۔ یوں مسلمانوں کا قبلہ اوّل ہنوز یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ یہودیوں کے بقول 70ء کی تباہی سے ہیکل سلیمانی کی ایک دیوار کا کچھ حصہ بچا ہوا ہے جہاں دو ہزار سال سے یہودی زائرین آ کر رویا کرتے تھے اسی لیےاسے "دیوار گریہ” کہا جاتا ہے۔  یہودی مسجد اقصٰی کو گرا کو ہیکل تعمیر کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ تاہم انھیں کامیابی نہیں ہوئی، اب امریکی صدر ٹرمپ کے بیان کے بعد امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کیا جائیگا۔ جو اسرائیل کا دارالخلافہ بھی ہوگا۔ پھر اس کے بعد مسلم اُمہ کی خاموشی یقیناً باعث تشویش ہے، اس امت کو پھر سے صلاح الدین ایوبی کی تلاش ہے، مگر کون ہوگا اور کہاں سے آئیے گا وہ عظیم مجاہد۔۔۔۔۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email