گندم کا مسئلہ اور منفی سیاست

چترال میں لوگ اسوقت گندم کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ گلگت کے ریٹ پہ گندم مہیا کیا جائے۔ جو لوگ احتجاج کی قیادت کر رہے ہیں نہ ان کے پاس کوئی روڈ میپ ہے نہ انھیں معاملے کا ادراک ہے نہ انھوں نے پیکیج کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے بس متوقع الیکشن سے قبل کچھ سیاست دان لوگوں کو جمع کرکے حکومت اور ملز مالکان کو اونچی آواز میں گالیاں دے کر اپنے آپ کو عوام کے سامنے لانا چاہتے ہیں میں ثبوتوں کے ساتھ حقائق آج آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں ۔

کل سابق ناظم مغفرت شاہ صاحب نے ویڈیو بیان جاری کیا تھا جس میں مطالبہ کیا تھا کہ ہمیں گلگت کے ریٹ پہ گندم دیا جائے ۔ اس پوسٹ پہ ایک نوجوان نے کمنٹ کیا تھا کہ گلگت کو سبسڈی اسماعیلی امام پرنس کریم آغاخان کی طرف سے دی جاتی ہے جبکہ پرنس کریم صاحب چترال کو بھی دے رہے تھے چترالی علماء نے اسکی مخالفت کی ۔ تو میں نے اس کے اوپر تحقیق شروع کی۔ بی بی سی ویب سائٹ کے تین چار رپورٹس ، جیو نیوز کے کچھ رپورٹس اور گلگت جغفریہ ویب سے معلومات حاصل کیں وہ آپ سے شیر کر رہا ہوں بطور ثبوت وہ سکرین شارٹس بھی میرے پاس موجود ہیں۔ ان رپورٹس کا خلاصہ یہ ہے کہ 13 اگست 1948( یعنی بلتستان کی آزادی سے ایک دن قبل ) اقوام متحدہ میں ایک قرارداد منظور کی جاتی ہے جس کے تحت جموں کشمیر اور شمالی علاقہ جات میں نظام مواصلات کی خرابی کے باعث یہاں کی حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہاں کے عوام تک خوراک ( گندم ) کی رسائی کے اخراجات ریاست برداشت کرکے انھیں خصوصی پیکیج دیا جائے ۔ پاکستان اس مطالبے پہ عمل نہیں کرتا ہے 1972 میں ذولفقار علی بھٹو شمالی علاقہ جات کے دوروں کے دوران علاقوں کی پسماندگی کو دیکھتے ہوے اس مطالبے پر عمل کرتے ہوے انھیں خصوصی پیکج دینے کا اعلان کرتا ہے تب سے پیکیج کا سلسلہ جاری تھا 2008 میں جنرل پرویز مشرف گلگت بلتستان کا پیکج ختم کرتا ہے ۔ گلگت والے احتجاج کرتے ہیں پانچ سال بعد 2013 میں پیپلز پارٹی کی حکومت اسے جزوی طور پہ بحال کرتا ہے ۔ پھر میاں نواز شریف اسے بحال کرتا ہے اس کے بعد ستمبر2021 خان صاحب کی حکومت میں اس کا خاتمہ کیا جاتا ہے ، تب سے گلگت والے احتجاج کر رہے تھے بلاآخر دو مہینہ پہلے 23 مارچ کو اسحاق ڈار کی قیادت میں ای سی سی اجلاس میں 2 ارب 90 کروڑ روپے گندم کی مد میں سبسڈی دینے کا اعلان کیا جاتاہے یہ پیسے ختم ہونگے تو آگے کیا ہوگا یہ اللہ کو معلوم ہے۔ یہ ہے پیکیج کی حقیقت اور گلگت کا مسئلہ جو ہم سے یکسر مختلف ہے اب ہمارا مسئلہ کیا ہے ؟ آئیے وہ دیکھتے ہیں۔ ایک انسان کی سالانہ ضرورت 124 کلو گندم ہے اس حساب سے لوئر چترال کا گندم کا کوٹہ 2 لاکھ ننانوے ہزار بوری ہے ۔ سابقہ صوبائی حکومت نے وہ کوٹہ گھٹا کے 2 لاکھ 24 ہزار کی تھی جس میں سے 1 لاکھ بیس ہزار بوری ملوں کو دی جاتی ہے اور لوئیر چترال میں صرف ایک لاکھ چار ہزار بوری گندم بچتی ہے۔ ( یہ معلومات ڈسٹرک فوڈ کنٹرولر سے حاصل کی ہے ) ۔ اب ہمارا مطالبہ کیا ہونا چاہیے ۔

  1. ۔ 1948 کے اقوام متحدہ کے قرارداد کے مطابق جب تک ہمارا مواصلات کا نظام ٹھیک نہیں ہوتا کھوت، ریچ تیریچ، یارخون اور گبور جیسے علاقوں تک جب تک سڑکی پکی نہیں ہوجاتی تب تک ہمیں یہ پیکیج ملنا چاہیے ۔
  2. ۔ ہمارا گندم کا کوٹہ آبادی کے حساب سے مکمل دیا جائے
  3. ۔ ملز مالکان کو عوامی کوٹے سے گندم نہ دی جائے بلکہ ان کے لیے الگ کوٹہ مختص کیا جائے یا انھیں بند کیا جائے ۔
    یہ ہمارے قانونی مطالبات ہیں ان کو سامنے رکھتے ہوے ہم اپنا کیس ٹھیک طریقے سے لڑ سکتے ہیں

میں نے جب یہ معلومات معروف قانون عبدالولی خان صاحب سے شیر کی تو انھوں نے مجھ سے کہا آپ کے پاس بہت معلومات ہیں آپ جلسے میں آکے یہ لوگوں کے ساتھ شیر کریں میں نے کہا بالکل کیوں نہیں ۔ نمازِ جمعہ کے بعد میں جلسے میں گیا تو ایڈوکیٹ صاحب وہاں موجود نہیں تھے سٹیج پہ جاکے میں نے دو تین منٹ کے لیے وقت مانگا تو مجھے کہا گیا کہ آپ کے پاس کوئی پارٹی عہدہ نہیں ہے اسلیے آپ تقریر نہیں کر سکتے اس کا مطلب یہ ہےاگر کسی کے پاس عہدہ نہیں ہے تو اسے صرف تقریر سننا اور نغرہ دینا چاہیے جبکہ بولنے کا حق صرف پارٹی عہدیداروں کو ہے پچھلے دنوں ایڈوکیٹ وقاص صاحب کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا تھا لہذا پارٹی عہدیدار جلسہ کرو تقریر کرو اسے عوامی جلسے کا نام مت دو عوام آپ کے غلام نہیں آپ کی تقریر سننے اور نغرہ دینے کے لیے آپ کے پیچھے چلے ۔ لہذا چترالی عوام سے گذارش ہے کہ ان کو پہچانیے یہ اپنی سیاست کے لیے عوام کو استعمال کر رہے ہیں عوامی مسائل کے لیے عوامی تحریک چلاو اور ان سیاست دانوں کے پیچھے مت چلو مشکل وقت میں یہ کبھی بھی آپ کا ساتھ نہیں دینگے

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email