دکھ درد کی سوغات ہے دنیا تیری کیا ہے؟

شکم مادر سے شروع ہونے والا زندگی کا سفر تخیلات کی حسین وادیوں سے ہوتا ہوا، دکھوں کی سرزمین تک پہنچ جاتا ہے، جہاں جہاں انساں کو خوشیوں سے واسطہ پڑتا ہے وہاں دکھ اور غم بھی انسان کو گھیر لیتے ہیں اور معاشرے میں ستائے ہوے اور محروم طبقے کا دکھوں سے اکثر سامنا ہوتا ہے- لوگ کہتے ہیں کہ دکھوں کے بیج نہیں ہوتے، وہ ایسے ہی اُگ آتے ہیں، دل میں، ذہن میں، آنکھوں میں اور زمین پر اور ان دکھوں کی فصل کاٹتے کاٹتے عمریں بیت جاتی ہیں۔ مگر معاشرے کے محروم طبقے کے لیے نہ صرف یہ دُکھ بوئے جاتے ہیں بلکہ انھیں باقاعدہ سیراب کرکے مٹنے نہیں دیا جاتا انھیں وقتاً فوقتاً تازہ بھی کیا جاتا ہے، تاکہ محروم طبقے کو بااثر طبقے کے شکنجے سے نکلنے کا موقع ہی نہ ملے، اور محروم طبقہ یہ دکھ درد سہہ سہہ کے انھیں اپنی زندگی کا جزو لا ینفک سمجھنے لگے، اور یوں محروم طبقہ بھی درد سہنے کا عادی ہوجاتا ہے، اور درد کا احساس بھی ختم ہونے لگتا ہے، بقول غالب،
رنج سے خوگر ہو انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں اتنی پڑی مجھ پہ کہ آساں ہوگئی،
اسی طرح ضلع چترال میں آفات سماوی زلزلوں اور شدید سیلاب کی ہولناکیوں سے بچنے والی قوم بھی مشکلیں سہہ سہہ کے یوں عادی ہوگئی ہیں ، انھیں تو لگتا ہے کہ یہ مصائب ہماری زندگی کا حصہ ہیں انھیں کوئی ہم سے الگ نہیں کرسکتا،آفات سماوی کے علاوہ کچھ مسائل خود ساختہ یا کرپٹ سرکاری اہلکاروں اور عوامی نمائندوں کے پیدا کردہ بھی ہیں بلکہ یہاں کے اکثر مسائل تو ایسے ہی ہیں، مگر یہ قوم انھیں بھی آفات سماوی سمجھ کے چپ کا روزہ توڑنے کو تیار نہیں، عوامی نمائندوں کا ان سے رشتہ پانچ سال میں ایک یا دو مہینوں کے لیے ہوتا ہے، اور دو مہینے بعد یوں غائب ہوجاتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ- اس قوم کے مسائل کو اگر کوئی اجاگر کرنے کی کوشش بھی کرے تو کیا کرے،؟ کوئی ان پہ لکھنا چاہے تو کیا لکھے ؟ اور کیسے لکھے؟ یہاں تو مسائل ہی مسائل ہیں اور سب کا تعلق بنیادی انسانی زندگی سے ہے- اسی طرح ایک روز میں صرف ایک ادارے کے اندر مجھے جتنے عوامی مسائل کو دیکھنا پڑا ان میں سے کچھ آپ سے بھی شیر کرنے کی کوشش کرتا ہوں،
پچھلے دنوں مانیٹرنگ افیسر ہیلتھ محمد آمان کے ہمراہ ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال جانے کا اتفاق ہوا، ہم ایم ایس کے دفتر میں بیٹھے تھے کہ اچانک خیال آیا کیوں نہ ایک تیر سے دو شکار کیے جائے اور ڈاکٹر محبوب صاحب سے مل کے آنکھوں کا معائنہ بھی کرواکے جائیں، یہ سوچ کے محبوب صاحب کا پوچھا تو پتہ چلا کہ ڈاکٹر محبوب صاحب ریٹائر ہوچکے ہیں اور کوئی دوسرا آئی سپیشلسٹ ہے ہی نہیں، یعنی ڈسٹرکٹ ہیڈکواٹر ہسپتال پورے ضلعے کے چھ لاکھ آبادی کے نگاہوں کا مرکز پورے ضلعے سے مریض علاج کے لیے اسی ہسپتال کا رخ کرتے ہیں ان کا کیا ہوگا ؟ وہ کہاں جائے،، ہسپتال انتظامیہ نے بتایا کہ محبوب صاحب کے ایکسٹینشن کے لیے ایپلیکیشن بھیج چکے ہیں نہ ابھی تک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ سے اس کا کوئی جواب آیا نہ نئے ڈاکٹر کی تعیناتی ہوئی ہے، اس کے علاوہ باتوں باتوں میں ایسے انکشافات سامنے آئے جن پہ نہ میں آسانی سے یقین کرسکتا تھا اور نہ آپ یقین کرسکتے ہیں، یعنی صرف ڈی ایچ کیو ہسپتال چترال میں انیس 19 سپیشسلٹ ڈاکٹروں کی کمی ہے اور چالیس 40 میڈیکل افیسرز اور سولہ 16 ٹیکنیشنز کی کمی ہے اور پھر یہ بھی اسی وقت میں جب صوبائی حکومت صحت کے شعبے میں بلند و بانگ دعوے کر رہی ہو اور بلاشبہ کچھ عملی اقدامات اور کچھ اضافی تعیناتیوں کے بعد بھی اگر یہی حالت ہے تو پہلے کی حالت کیا ہوگی؟
اس کے بعد ڈی ایچ کیو ہسپتال کی ہی شاخ جنگ بازار ہسپتال کے بارے میں ایک انکشاف یہ ہوا کہ وہاں پہ مریضوں کے لیے پانچ پرائیویٹ رومز بنائے گیے ہیں اور ان پرائیویٹ رومز پہ نرس سٹاف کا غیر قانونی قبضہ ہے، ہسپتال انتظامیہ اور ضلعی انتظامیہ ان سے غیر قانونی قبضہ چھڑانے سے قاصر ہیں ، شائد ان کے ہاتھ قانون سے بھی لمبے ہیں، جبکہ وہاں پہ مریض کمروں کی عدم دستیابی کے باعث کھلے آسمان تلے گزارا کر لیتے ہیں۔
یہ سارا کچھ مجھے خواب لگ رہا تھا، میں خوابوں کی دنیا سے خود کو حقیقی دنیا میں لانے کے لیے وہاں سے نکلا، اور ایکسرے روم کے سامنے جب پہنچے تو وہاں پہ مریض قطار میں کھڑے تھے اور پتہ چلا کہ ایکسرا مشین خراب ہے، اندر جاکے پوچھا تو پتہ چلا کہ ایکسرا مشین دو تین دنوں سے خراب ہےاور ٹیکنیشن نے بتایا کہ ایکسرا مشین کی صرف ایک پائپ خراب ہے، جس کی قیمت پوچھنے پہ پتہ چلا کہ صرف پانچ ہزار ہے یعنی ایکسرا مشین جس کی افادیت کا سب کو اندازہ ہے اس کی خرابی سے ہسپتال کا سارا نظام رک سا گیا ہے، مریض اس مشین کے ٹھیک ہونے کے انتظار میں آہیں بھر رہے ہیں، دوسری طرف وفاقی اور صوبائی حکومت، عوامی نمائندے اور ہسپتال انتظامیہ صرف پانچ ہزار روپے عوامی پیسے عوام کے لیے خرچ کرنے کو تیار نہیں، میری کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ عوام کی بے بسی پہ روؤں یا عوامی نمائندوں اور ہسپتال انتظامیہ کی بے حسی کا ماتم کروں- مزید اسی ماحول میں رہنا میری اپنی صحت کے لیے بھی سازگار نہیں تھا اس لیے ساغر صدیقی کے یہ اشعار گنگناتے ہوے مین گیٹ سے باہر نکل آیا–
دُکھ درد کی سوغات ہے دنیا تیری کیا ہے ؟
اشکوں بھری برسات ہے دنیا تیری کیا ہے ؟
کچھ لوگ یہاں نور سحر ڈھونڈ رہے ہیں–
تاریک سی اک رات ہے دنیا تیری کیا ہے ؟

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے