خدا کی تلاش۔ (پہلی قسط )

سیانے کہتے ہیں کہ سہارا تلاشنے والے ہمیشہ بے سہارا رہتے ہیں۔ مگر حقیقت میں بنی نوعِ انسان کو ازل سے سہاروں کی ضرورت رہی ہے، پیدائش اور بچپن سے لے کر لڑکپن ، جوانی اور بڑھاپے تک سفر زیست میں کئی ایسے مراحل آتے ہیں کہ انسان خود کو بے سہارا محسوس کرتا ہے، یا دنیاوی سہارے انسان کی ضرورت کے مطابق نہیں ہوتے یا انسانی تقاضوں کیلیے محدود پڑجاتے ہیں، تو انسان غیر مرئی طاقت اور مخیر العقول کارنامے سرانجام دینے والی ذات کی تلاش شروع کرتا ہے، جو انہونی کو ہونی میں بدل دے ، جو اس کے کالی گھٹاؤں والی ناامید زندگی میں امید کی کرن بن کر جگمگانے لگے، تلاش اگر نتیجہ خیز ثابت ہو تو مظفر وارثی کی طرح منزل کا حصول آسان ہو جاتا ہے۔

کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے

وہی خدا ہے

دکھائی بھی جو نہ دے

نظر بھی جو آرہا ہے

وہی خدا ہے

تلاش اُس کو نہ کر بتوں میں

وہ ہے بدلتی ہوئی رُتوں میں

جو دن کو رات اور رات کو دن بنا رہا ہے

وہی خدا ہے

وہی ہے مشرق وہی ہے مغرب

سفر کریں سب اُسی کی جانب

ہر آئینے میں جو عکس اپنا دکھا رہا ہے

وہی خدا ہے

کسی کو سوچوں نے کب سراہا

وہی ہوا جو خدا نے چاہا

جو اختیارِ بشر پہ پہرے بٹھا رہا ہے

وہی خدا ہے

یہ مظفر وارثی کی خوش قسمتی ہے کہ اس کی تلاش نتیجہ خیز ثابت ہوئی کہ اسے دوسرے اور تیسرے شعر سے بھی آگے جانے کا موقع ملا ، ورنہ اکثرو بیشتر پہلے شعر تک تو پہنچ جاتے ہیں مگر اس سے آگے رابطہ کار کی تلاش میں بھٹک جاتے ہیں۔ مگر اس نتیجے پر اکثر و بیشتر پہنچ جاتے ہیں کہ پھیلی ہوئی کائنات کی رنگینی، گردش لیل و نہار، سورج کی تپش، چاند کی مختلف حالتیں، مگر سب سے بڑھ کر اپنی بے ثباتی کے پیچھے کسی کی بقا کا راز دکھائی دیتا ہے، تو اس ذات پاک سے رشتہ استوار کرنے کی کوشش شروع کرتا ہے، اس تلاش کے نتیجے میں اس غیر مرئی طاقت سے جو تعلق بنتا ہے اسے مذہب کہتے ہیں۔ مذہب انسان کی ناامید زندگی میں امید کی ایک کرن ہے، مذہب مخلوق اور خالق کے درمیان ایک روحانی تعلق کا نام ہے، مذہب کے ذریعے انسان اپنے خالق تک پہنچ جاتا ہے، خالق یا خدا کے نام ہر مذہب میں اور ہر زبان میں الگ الگ ہیں، خدا کی صفات تو عام طور پر ایک جیسی ہی ملتی ہیں، کہ وہ خالق ہے، مالک، ہے رز‍ق دینے والا، گناہ معاف کرنے والا، رحم کرنے والا اور دعا سننے والا۔ زبانوں کے فرق سے انسانوں نے اس مالک الملک ہستی کو کہیں اﷲ، کہیں ایشور، کہیں گاڈ، کہیں بھگوان ، اور کہیں یزداں کا نام دیا۔ خدا کے وجود سے انکاری ملحدین کے علاؤہ تو کوئی نہیں۔ مگر ماننے والوں میں کوئی ایک خدا کو ماننے والا کوئی تثلیث کا قائل تو کوئی تین سو ساٹھ بتوں کا پجاری کوئی اپنے ہاتھوں سے مورتی بنا کے اسے خدا تک پہنچنے کا وسیلہ مانتا ہے، کوئی سورج کی وساطت سے خدا تک پہنچنے کا خواہش مند ہے، کوئی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا مانتا ہے تو کوئی عزیر علیہ السلام کو، یہ سب مذہبی ٹھیکہ داروں کی تخریفات ہیں ورنہ بنیادی طور پر کوئی بھی دین ( یہاں الہامی ادیان مراد ہیں ) خالق اور مخلوق کے درمیان روحانی رشتہ استوار کرنے کی کوشش ہوتی ہیں، پھر بعد میں بے سہارا لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کیلیے مذہب کے ٹھیکیداروں نے مذہب کا اصلی چہرہ مسخ کرکے اپنے اپنے مفاد میں مجبور،لاچار اور بے سہارا لوگوں کو لوٹنے لگے، کیونکہ انسان کو خدا تک پہنچنا تھا، خدا تک پہنچنے کیلیے ذرائع اور رابطہ کار کی تلاش میں انساں بھٹکتا ہوا مذہبی ٹھیکہ داروں کے ہاتھوں تختہ مشق بنتا رہا۔ خالق ارض و سماء نے بھی اپنی پیدا کردہ مخلوق کو بے سہارا نہیں چھوڑا، اسے راہ راست پر لانے کیلیے پیامبر ، اور رابطہ کار بھیجتا رہا، مگر ان کے پردہ فرمانے کے ساتھ ہی انسان راہ راست سے دور نکلتا گیا، بلا آخر آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے عرب کے ریگستان میں پیدا ہونے والا ایک یتیم بچہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) جو بچپن سے لڑکپن پھر جوانی سے تک اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کی وجہ سے صحرائے عرب میں اپنا لوہا منوا چکے تھے نے انسان اور خدا کے درمیان تعلق استوار کرنے کیلیے ایک الہامی مذہب سمیت مبعوث ہونے کا اعلان کیا۔ اور ایک ایسے مذہب کا اعلان کیا جو گزشتہ سارے الہامی مذاہب کی تجدید کرتا تھا، جس کے بقول کائنات کو پیدا کرنے والا صرف ایک ذات، جو تمام رشتوں سے پاک، انسانی کمزوریوں، تھکن، بھوک، نیند ، اونگھ ، نفسانی خواہشات، بیوی بچوں اور ہر قسم کی ضروریات سے پاک ذات جو نہ خود کسی سے پیدا ہوا نہ کوئی اس سے پیدا ہوا، جسکی نہ ابتداء ہے نہ انتہا، وہ ہر جگہ موجود آگے پیچھے، اوپر نیچے حال ماضی مستقبل سب سے باخبر، چھوٹے بڑے، بادشاہ رعایا، امیر،غریب۔ مرد ، عورت، انسان، جنات ، زمین آسمان سب کا صرف ایک ہی خالق ہے، وہی اصل خدا ہے، اور جسکی تعلیمات بحیثیت آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کی ۔ وہ تعلیمات اس وقت کے تمام مذاہب کے مقابلے میں منفرد تھیں۔ (اسلام کی انفرادیت کیا تھی ملاحظہ فرمائیے اگلی قسط )

Print Friendly, PDF & Email