ٹنل کہانی

چترال کو ملک کے دوسرے حصوں سے ملانے والا واحد راستہ درہ لواری ٹاپ جسکی سطح سمندر سے بلندی 10239 فٹ ہے، جو کہ سردیوں میں برف باری کیوجہ سے چھ مہینے آمدورفت کیلیے بند رہتا ہے، اور چترالی عوام زیادہ تر ان دنوں لواری ٹاپ کے راستے پیدل سفر کرنے پر مجبور ہوتے تھے، اور دوران سفر سخت سردی اور سلائڈنگ کیوجہ سے اب تک ہزاروں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں، لواری ٹنل چترالی عوام کا دیرینہ مطالبہ تھا، جو تقریباً پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے، لواری ٹنل کی پہلی مرتبہ فزیبیلٹی رپورٹ 1955 میں تیار کی گئی، اور کچھ لوگوں کے بقول 1970 کے الیکشن میں چترال سے قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہونے والے اتالیق سرفراز علی شاہ نے اسمبلی میں اس کیلیے آواز اٹھائی پھر ذولفقار علی بھٹو نے اس منصوبے پہ کام کا آغاز کیا، ہوسکتا ہے صحیح ہو مگر ہماری معلومات کے مطابق 1973/74 میں چترال میں خشک سالی کی وجہ سے غذائی قلت کا مسئلہ ہوا، لواری ٹاپ بند تھا لوگ کئی کئی دنوں تک بھوکا رہنے لگے، لٹکوہ کے علاقے سے ایک شخص جس کے بچے کئی دنوں سے بھوکے تھے، اشیاء خوردونوش کی خریداری کیلیے چترال آتاہے، چترال میں تلاش بے سیار کے باوجود کچھ بھی نہیں ملتا ہے، تو چاروناچار یہ شخص چیو پل پہ جاکے خودکشی کرلیتا ہے، چترال کے سیاسی رہنما مولانا اورنگ زیب مرحوم فاضل دیوبند المعروف تپرگیے مُلا اور تورکہو کے ایک ریٹائرڈ صوبیدار (جسکا نام یاد نہیں) کی قیادت میں احتجاجی مظاہرہ کرتے ہیں،  (لوک روایات کے مطابق بذریعہ تار، یا جو بھی مناسب سہولت دستیاب ہو ) کے ذریعے وزیر اعظم ہاؤس کو اطلاع دیتے ہیں، وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو مرحوم اطلاع ملتے ہی چترال کا دورہ کرتے ہیں، چترالیوں کیلیے ہنگامی بنیادوں پر اشیائے خوردونوش حتیٰ کہ مویشیوں کیلیے بھی بذریعہ ہیلی کاپٹر چارہ کا بندوبست کرواتا ہے، اور دوسری طرف چترال کے سیاسی قائدین کو ضلعی انتظامیہ کی طرف سے نشانہ بنایا جاتا ہےاور مولانا اورنگزیب (تپرگیے ملا)  کو چھ مہینے تک حبس بے جا میں رکھا جاتا ہے (تپر گیے مُلا اور تورکہو کے ریٹائرڈ صوبیدار کا اس معاملے میں ایک مزاحیہ لطیفہ بھی مشہور ہے جو پھر کبھی) وزیراعظم صاحب ہنگامی بندوبست کرنے کے بعد کہتے ہیں یہ مسئلے کا مستقل حل نہیں مستقل حل لواری ٹنل ہی ہے، پھر ذولفقار علی بھٹو کی خصوصی دلچسپی سے جولائی 1975 میں لواری ٹنل آرگنائزیشن کا قیام عمل میں لایا گیا اور اس عظیم منصوبے پہ کام کا آغاز ہوا، مگر اہلیان چترال کا قدرت کی طرف سے امتحانات کا سلسلہ ختم نہیں ہوا تھا، ذولفقار علی بھٹو حکومت کا جنرل ضیاءالحق کے ہاتھوں خاتمہ ہوجاتا ہے، اور جنرل ضیاء اس منصوبے کو ناقابل عمل قرار دیکر کام روک دیتاہے۔
تقریباً پچیس سال انتظار کے بعد 2002 الیکشن سے پہلے سابق ایم این اے مولاناعبدالاکبر چترالی کوہاٹ ٹنل بن سکتا ہے تو لواری ٹنل کیوں نہیں کا نغرہ لگا کر عوام سے ووٹ لیتا ہے، پھر قومی اسمبلی میں عوام کی بھرپور نمائندگی کرتے ہوے ٹنل کے مسئلے کو اجاگر کرتا ہے، اور اسمبلی میں مولانا چترالی کا نام ٹنل مُلا رکھا جاتا ہے، بلاآخر مولانا چترالی کی کوششیں رنگ لاتی ہیں، اور سابق صدر جنرل پرویز مشرف خود چترال آکے اس منصوبے کا دوبارہ افتتاح کرکے چترالی قوم کے دیرینہ مسئلے اور خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کی کوشش کرتا ہے، اب کی بار کوریا کے تین کمپنیوں کے اشتراک Sambu Joint Venture)  کو ذمہ داری سونپتا ہے (Sam. تین، Bu, بڑا،  یعنی تین بڑی کوریائی کمپنیوں کا اشتراک)
یہ کام دو مرحلوں میں مکمل ہونا تھا، پہلے مرحلے میں ٹنل کے زریعے چترال کو دیر سے ملانا، دوسرے مرحلے میں ریلوے ٹریک بچھانا، یا، اندرونی صفائی اور لنک روڈ، چترالیوں کی بدقسمتی اب کی بار بھی نمایاں رہی، وفاق میں صدرپاکستان جنرل پرویز مشرف کی حکومت کا خاتمہ ہوا، اور پیپلز پارٹی برسرِاقتدار آئی، مگر پیپلز پارٹی اپنے بانی ذولفقار علی بھٹو کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں ناکام رہی، پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور حکومت میں اس منصوبے کیلیے صرف ایک ارب روپے ریلیز ہوے۔
پیپلز پارٹی کے بعد مسلم لیگ ن کی حکومت آئی، عموماً چترالی عوام وزیراعظم نواز شریف کو چترال دشمن سمجھتے ہیں مگر وزیراعظم کی سربراہی میں وفاقی حکومت نے اس منصوبے کیلیے دل کھول کر فنڈ ریلیز کیے، اب کی بار ممبرقومی اسمبلی شہزادہ افتخار نے بھی قومی اسمبلی میں عوام کی صحیح نمائندگی کی، اور بلاآخر لواری ٹنل کا منصوبہ تقریاً پایہ تکمیل کو پہنچایا،  اس منصوبے کے شروع سے لیکر آخر تک، وزیراعظم ذولفقارعلی بھٹو، صدر جنرل پرویز مشرف اور وزیراعظم نوازشریف گو کہ میں نے ان تینوں میں کسی ایک کو بھی ابھی تک ووٹ نہیں دیا ہے، مگر آج یہ کہنے میں عار محسوس نہیں کرونگا کہ ان تینوں کا کردار ذاتی طور پہ جو کچھ بھی ہو چترالیوں کے محسن ہیں، اور چترالی نمائندے کی حیثیت سے جس جس نے بھی اس مسئلے کو اجاگر کیا خواہ 1974 میں مولانا اورنگ زیب کے ساتھ احتجاج میں شریک ہونے والے یا بعد میں مولانا چترالی کی قیادت میں پشاور میں احتجاج کرنے والے وکلاء برادری طلباء تنظمیں سب خراج تحسین کے مستحق ہیں، یہ بلاشبہ ہمارا حق تھا، مگر آجکل حق آسانی سے نہیں ملتا، جس جس نے اس حق کیلیے آواز اٹھائی اللہ تعالیٰ انھیں بھی اجر عظیم عطا فرمائے، اور حقدار کو حق دینا انصاف کہلاتا ہے، جس جس نے ہمارے ساتھ انصاف کیا اللہ تعالی انھیں بھی اجرعظیم عطاء فرمائے، آمین،
Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے