جمیعت کا صد سالہ اجتماع اور مخالفین کی بوکھلاہٹ

1866 عیسوی یوپی ہندوستان کے دیوبند کا علاقہ چھتہ  کی مسجد کے سامنے انار کی درخت کے نیچے ایک علمی مجلس ،جہاں اسباب زوال امت پہ غور وخوض کے ساتھ  مسلمانوں کی پستی اور زوال کے تدارک کے لیے ایک دینی درسگاہ کی بنیاد رکھی جارہی ہے، مہتمم مدرسہ کا نام ہے ،مولانا قاسم نانوتوی اور معلم مولوی محمود طالبعلم محمود الحسن (بعد میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن ) عجیب اتفاق دیکھیے، پڑھانے والا بھی محمود پڑھنے والا بھی محمود تذکرہ  بھی محمود کا  عشق کا منبع بھی محمود مشن بھی محمود کا… اس وقت تو شائد کسی کے وہم و گمان میں  بھی نہیں ہوگا کہ ان کی یہ کوشش ایک دن دنیا کے عظیم علمی درسگاہوں کی صورت میں عالم اسلام کی توجہ کا مرکز بنے گا، شائد قبولیت کی گھڑی تھی ،رب کائنات نے ان کی چھوٹی سی کوشش اور اخلاص کو مقبولیت اور دوام بخشنے کا فیصلہ کیا اور کچھ ہی عرصے بعد مدرسہ دیوبند کا شمار دنیا کی عظیم علمی درسگاہوں میں ہونے لگا۔
فضلاء دیوبند کی علمی خدمات مجاہدانہ صلاحیتوں ،تحقیقی کاوشوں اور سیاسی بصیرت کا تذکرہ تو ایک مضمون کی صورت میں ممکن نہیں۔دیوبند کے فضلاء نے زندگی کے ہر شعبے میں ایسے کارہاے نمایاں انجام دیے ہیں، جن کی نظیر تاریخ میں مشکل سے ملے گی۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد دیوبند کے چند اکابر علماء عدم تشدد اور جمہوری طریقے سے  اپنا حق منوانے کی سعی کا آغاز کرتے ہوے 1919 میں مفتی کفایت اللہ ہندی کی قیادت میں جمعیت علماء ہندکی بنیاد رکھ لی جاتی ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں جمعیت علماء خصوصاً تقسیم کے معاملے میں  مسلم لیگ کی موقف کے بجائے اپنی موقف پہ کاربند رہی گو کہ ظاہری طور پر مولانا حسین احمد مدنی ،مولانا ابولکلام کا موقف کیا تھا یہ الگ بحث ہے جس کا تذکرہ یہاں ممکن نہیں  بحر حال  مسلم لیگ کے  حامی علماء نے مولانا شبیر احمد عثمانی کی قیادت میں جمعیت علماء پاکستان کی بنیاد رکھ لی
اب جمعیت علماء اسلام نے صد سالہ یوم تاسیس منایا تو ایک سوال یہ بھی ہوگا کہ صد سالہ تاسیس کیسے؟
پہلی بات 1919 سے آج تک اسلامی کیلنڈر ائیر کے حساب سے سو سال بنتے ہیں  پھر علامہ شیر احمد عثمانی اور مولانا حسین احمد مدنی کے درمیان اختلاف  نہ صرف پاکستان بلکہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے سودمند ثابت ہوئی۔ ہندوستان میں پھنسے ہوے مسلمانوں کے لیے جمعیت علماء ہند اور پاکستان کے اسلام پسند طبقوں کی ترجمانی کے لیے جمعیت علماء پاکستان نقطہ آغاز ۔۔۔دونوں کا 1919 میں شروع ہونے والی جمہوری جدوجہد یا پھر یوپی ہندوستان میں چھتہ کی مسجد کے سامنے انار کی درخت کے نیچے وہ علمی نشست……..
الغرض پاکستان کے دیوبندی علماء کی نمائندہ جماعت جمعیت علماء اسلام( ف )علماء کی سوسالہ سیاسی جدوجہد اور اپنی سیاسی طاقت کو دنیا کو دیکھانے کے لیے اضاخیل نوشہرہ میں سات آٹھ اور نو اپریل کو سہ روزہ اجتماع منعقد کیا، یہ اجتماع بلاشبہ ایک تاریخی اجتماع تھا ،جس نے سیاسی مخالفین کو سوچنے پہ مجبور کیا کہ اتنا بڑا عوامی اجتماع قائدجمعیت مولانا فضل الرحمٰن کی سیاسی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے- عموماً سیاسی پارٹیاں عوامی تعداد کو  سیاسی جلسوں کی کامیابی قرار دیتے ہیں ۔ اگر  اس حساب سے دیکھا جائے تو جمعیت کا صد سالہ اجتماع ایک تاریخی اجتماع تھا۔ سیاسی مخالفین میں کوئی بھی آج تک اتنا بڑا مجمع اکھٹا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئیں جس کی وجہ سے جمعیت کے سیاسی مخالفین بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے ہیں اور تنقید کے لیے مختلف منفی پہلو ڈھونڈنے کی کوشش کررہے ہیں  باوجود  انتہائی  کوشش کےکوئی منفی پہلو ڈھونڈنے میں ناکام رہے ہیں، کچھ معترضین کو اعتراض ہے کہ تعداد بڑھانے کے لیے امام کعبہ کا سہارا لیا گیا بھئی یہ تو کوئی اعتراض نہیں دوسری سیاسی پارٹیاں عوامی تعداد بڑھانے کے لیے رقص و سرود کا بندوبست کرتے ہیں۔ ان پہ تو کوئی اعتراض نہیں اگر جمعیت نے امام کعبہ کو دعوت دی بھی  تو اس میں حرج کیا ہے ویسے تو مولانا فضل الرحمن نے  نہایت وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوے تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو دعوت دی جس میں دو درجن سے زائد ممالک کی نمائندگی شامل تھی اور عموماً سیاسی جلسوں میں دوسروں کو مرغوب کرنے کے لیے بلایا جاتا ہے، انھیں بولنے کا موقع نہیں دیا جاتا مگر مولانا فضل الر حمن نے ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوے تمام سیاسی رہنماؤں کو بولنے کا موقع بھی دیا ۔العرض جمعیت کے صد سالہ اجتماع میں کسی چیز کی کمی نہیں تھی، ہر لحاظ سے تاریخی اجتماع تھا البتہ قائد جمعیت کو ایک اور وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوے صوبائی حکومت اور اور خان صاحب کو بھی دعوت دینا چاہیے تھا اس کے علاوہ سب کچھ تھا صرف دو چیزوں کی کمی تھی ایک قائد جمعیت کے بھائی مولانا عطاءالرحمٰن کے استاذ جمعیت( س) کے رہنما مولانا سمیع الحق صاحب کی کمی  اور دوسری چیز مولانا صاحب چونکہ کشمیر کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں اس کے باوجود حریت رہنماؤں کی کمی محسوس ہوئی ان چیزوں کے بارے میں جمعیت کا وضاحتی بیان کچھ دنوں میں سامنے آئیگا مگر مجموعی طور پر جمعیت کے اجتماع نے مخالفین کو بلاشبہ بو کھلاہٹ کا شکار کیا ہے اور اس سے بھی بڑی تشویش کی بات پی ٹی آئی کے لیے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی تقریر تھی جس نے مولانا کو دینی جماعتوں کے اتحاد کا اختیار دیدیا گو کہ سراج صاحب کا یہ جذباتی بیان جماعت اسلامی کے اندر ہی اس کے لیے تنقید کا باعث بنے گا اور اس اتحاد کے فی الحال تو آثار نظر نہیں آرہے ہیں ۔ کیونکہ جماعت اسلامی کی قیادت برابری کی بنیاد پہ اتحاد کا خواہاں ہے جبکہ جمعیت اپنی برتری کے پیش نظر فارمولے کے تحت اتحاد کا خواہشمند ہے، اب برابری جمعیت کے لیے قابل قبول نہیں ہوگی  کیونکہ جمعیت کی سیٹیں کے پی کے   بلوچستان اور قومی اسمبلی میں زیادہ ہیں۔ اس لیے فارمولے کے بغیر برابری کی بنیاد پہ اتحاد ان کے لیے قابل قبول نہیں ہوگی تو کیا ایسے میں سراج الحق صاحب جماعت کے قائدین کو فارمولے کے تحت ایک پلیٹ پہ لانے میں کامیاب ہوسکتا ہے یا نہیں یہ آنے والا وقت بتائے  گا بہرحال اس اجتماع سے جمعیت علماء اسلام  ایک ایسی طاقت بن کے سامنے آئی ہے جس کی حقیقت کو نظراندز کرنا مخالفین کیلے ناممکن ہے اور پختونخوا کے اندر اتحاد کی صورت میں پی ٹی آئی  پی پی ن لیگ اور نیشنل پارٹی کے حلق میں ایسی ہڈی بن کے پھنسنے والی ہے جسے وہ آسانی سے نہ نگل سکیں گے نہ چبا سکیں گے۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے