بھٹو زندہ ہے!

پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی سابق وزیراعظم و صدر ذوالفقار علی بھٹو جسے ایک عدالتی فیصلے کے تحت 4 اپریل 1979 کو سابق فوجی حکمران جنرل ضیاءالحق کے دور میں پھانسی دی گئی اور پیپلز پارٹی کے جیالے ہر سال اسی دن ذوالفقار علی بھٹو کی برسی مناتے ہیں اور ان کا ایک نعرہ  زبان زدعام یہ کہ ( زندہ ہے بھٹو زندہ ہے ) گزشتہ کئی دنوں سے میڈیا خصوصا سوشل میڈیا پہ اسی نعرے پہ بحث چل رہی ہے اور ناقدین یہ کہہ کر تنقید کر رہے ہیں کہ اندرون سندہ مردم شماری کے عملے کو مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ وہاں ہر گھر سے بھٹو نکل رہا ہے  وغیرہ وغیرہ

بھٹو کے جیالے چترال میں بھی بہت ہیں بلکہ آج کل چترال کے دونوں ایم پی ایز کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے میں نے پیپلز پارٹی کو کبھی سپورٹ نہیں کیا بلکہ میرے دل میں کبھی بھی پیپلز پارٹی کے لیے نرم گوشہ نہیں رہا ہے مگر  کچھ دن پہلے میں دروش سے بذریعہ ٹیکسی چترال جارہا تھا ساتھ والی سیٹ پہ شریک سفر ایک ستر سالہ بزرگ شہری تھا بابا کے معلومات کا دائرہ وسیع اور حافظہ جوان تھا جبکہ بات کرنے کی رفتار بھی ہماری گاڑی  رفتار  سے کئی گنا زیادہ  تھی باتوں باتوں میں بابا سیاست دانوں اور عوامی نمائندوں پہ تنقید کرنے لگا میں نے بابا سے اس کا سیاسی قبلہ پوچھنے کی جسارت کی تو بابا کہنے لگے کہ میرا سیاست سے دل بھر گیا ہے میں کسی کو نہیں مانتا سب چور ہیں ان میں سے  ایک بھی بھٹو جیسا نہیں۔ میں نے پوچھا بابا بھٹو میں ایسی کیا خاص بات تھی جو اِن میں نہیں؟ بابا نے کہا میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں ذوالفقار علی بھٹو اپنے دورِ وزارت عظمیٰ میں چترال کے دورے پہ آرہے تھے،  میں پولیس کانسٹیبل تھا، گرم چشمہ میں ایک مقام پہ بھٹو صاحب کے لیےکھانے کا بندوبست کیا گیا تھا میری وہاں پہ ڈیوٹی لگی ہوئی تھی جب بھٹو صاحب کی ہیلی وہاں پہنچی تو ہم لوگ دور دور کھڑے سکیورٹی پہ مامور تھے بھٹو صاحب نے دسترخواں پہ سب کو بلایا اور سب سے گلے ملنے کے بعد کہا آو سب بیٹھ کے کھانا کھاو ٔ یہاں سب میرے بھائی ہیں مجھے کوئی خطرہ نہیں پھر بھٹو صاحب نے ہم سب کو بیٹھا کے اپنے ہاتھوں سے ہمیں کھانا کھلایا بتاو آج وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کو چھوڑو  کوئی ایم پی اے ایسا کرسکتا ہے؟ پھر میں نے پوچھا بابا اس کے علاوہ بھٹو صاحب کی خدمات کیا ہیں؟  خاص کر چترال کیلیے ۔ بابا تھوڑا سا جذباتی ہوکے ….. یہ پوچھو بھٹو صاحب نے کیا نہیں کیا۔ یہ لواری ٹنل کا منصوبہ اسی نے شروع کیا تھا یہ کالجز ہسپتال اور بجلی گھر سب اسی کے ہیں ۔انہوں نے ہی عشر کا نظام ختم کیا وغیرہ وغیرہ
پھر میں سوچ میں پڑگیا اور سوچتے سوچتے میرے دل نے مجھ سے کہا سچ ہے کہ بھٹو زندہ ہے ! کیونکہ اچھائی مرتا نہیں بھٹو صاحب کی ذات میں لاکھ برائیاں ہو مگر اس کی کچھ عوام دوست پالیسیاں ایسی تھی جن کی وجہ سے بھٹو زندہ ہے
ذوالفقارعلی بھٹو نے انیس سو تہتر میں ملک کو نہ صرف پہلا متفقہ آئین دیا بلکہ ان کے دور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس کو بھی آج تک ان کی بڑی کامیابی قرار دیا جاتا ہے۔جبکہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام شروع کرنے کا سہرا بھی ذوالفقار علی بھٹو کے سرجاتا ہے۔ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کو روٹی کپڑا اور مکان کا تاریخی نعرہ دیا۔بھٹو ”سامراج“ کے خاتمے،اقتصادی آزادی اور خودکفالت کے حامی اور زندگی بھر اس موقف کے زبردست داعی رہے کہ کسی ملک کے اندرونی معاملے میں مداخلت نہ کی جائے،چھ ستمبر انیس سو پینسٹھ کو رات کے اندھیرے میں جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو اُس وقت ذوالفقار علی بھٹو نے بین الاقوامی محاذ پر پاکستان کی جنگ لڑی اور چین، انڈونیشیا، سمیت عرب ممالک  کی حکومتوں کو پاکستان کی اخلاقی اور مالی امداد پر رضامند کیا، ذوالفقار علی بھٹو نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کا مقدمہ لڑتے ہوئے تاریخی تقریر کی،  اُن کے دور حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ سات ستمبر انیس سو چوہتر کو قومی اسمبلی و سینٹ سے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینا اور دس اپریل انیس سو تہتر کو متفقہ آئین کی منظوری تھا۔ ان چیزوں کی وجہ سے وہ پاکستان میں زندہ ہے جبکہ چترال  کے حوالے سے تو چترال کی ڈگری اور کامرس کالجز  کی عمارتوں میں بھٹو زندہ ہے، لواری ٹنل کے منصوبے میں بھٹو زندہ ہے ،سب سے بڑھ کر ان غریبوں کے دلوں میں  بھٹو زندہ ہے جو کئی پشتوں سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوے تھے ۔انگریزوں کی غلامی سے تو لوگوں کو نجات ملی تھی مگر اکثر غریب لوگ ذوالفقار علی بھٹو کے دور تک ریاستی حکمران خاندان  کے حکیم اور چارویلو کی غلامی میں نچلے طبقے کے ہندوؤں کی طرح پسے جارہے تھے ۔لال ،حکیم اور چارویلو کے ٹکڑوں پہ پلنے والے نہ رہنے کیلیے ان کے پاس اپنا گھر تھا، نہ انھیں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت تھی  اور نہ اپنی مرضی کی زندگی جی سکتے تھے ۔ انہیں  ذوالفقار علی بھٹو نے آزادی دی ۔انھیں معاشرے کے معزز شہریوں میں شمار کیا۔ انھیں روٹی کپڑا اور مکان سے نوازا۔ ہم ان کے دلوں سے بھٹو کو کیسے نکال سکتے ہیں ؟ ان کے دل میں بسنے والے بھٹو کو ہم کیسے مار سکتے ہیں؟  جبکہ یہ الگ بات ہے ۔ بھٹو کی پارٹی اس کے جانشینوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے حالت نزغ میں ہے ۔پارٹی کو مارنے والے اس کے اپنے جانشین ہی ہیں۔ پارٹی قائدین پہ کرپشن کے الزامات اور بھٹو کے روٹی کپڑا مکان کے فلسفے سے اس کے جانشینوں کی دوری کی وجہ سے پارٹی قائدین سیاسی موت مرسکتے ہیں مگر بھٹو خود تو زندہ ہے بھٹو کو مارنے کے لیے نئے بھٹو کی ضرورت ہے اگر مخالفین بھٹو کو مارنا چاہتے ہیں تو ان کو چاہیے عوام دوست پالیسیوں سے بھٹو کو مارکے خود زندہ رہنے کی کوشش کریں اچھا کام کرکے دکھائیں کیونکہ اچھاکام کبھی نہیں مرتا ۔اچھائی کے تشہیر کی بھی ضرورت نہیں اچھائی ۔بولتا بھی ہے دِکھتا بھی ہے اور مرتا بھی نہیں اگر تم بھی زندہ جاوید رہنا چاہتے ہو تو عوام کی نبض پہ ہاتھ رکھو عوام سے گھل مل جاؤاپنے اندران کی مجبوریوں کا احساس پیدا کرو ، دکھ درد میں ان کا مداوا بنو تو تم بھی مرنے کے بعد زندہ رہ سکتے ہو، بصورت دیگر تم مروگے مگر بھٹو نہیں۔   بھٹو زندہ ہے اور زندہ رہیگا…

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے