محرم الحرام کی اہمیت

بغض لوگ محرم الحرام کے مہینے کو شہادت امام حسین رضی اللہ غنہ کی وجہ سے جانتے ہیں. اور اس مہینے کو ماتم تک محدود سمجھتے ہیں حالانکہ اس کے علاوہ بھی محرم الحرام کے مہینے کو تاریخی اہمیت حاصل ہے

  • سب سے پہلے قرآن پاک سورۃ توبہ میں اسے حرمت والے مہینوں میں شمار کیا گیا ہے
  • دوسرے نمبر پہ یہ اسلامی سال کا پہلا مہینہ
  • عاشورہ محرم کو لوگ شہادت امام حسین پھر دو دن کی چھٹی کو بھی اسی سے منسوب کرتے ہیں حالانکہ متعدد احادیث سے عاشورہ محرم میں نبی علیہ السلام اور صحابہ کرام کا روزہ رکھنا ثابت ہے

حدیث ِمبارکہ میں اسے ‘شھر اللہ’ کہا گیا ہے اور رمضان کے بعد سب سے افضل محرم الحرام کو قرار دیا گیا ہے۔ اس مہینے کی دس تاریخ کو ‘عاشورہ محرم’ کہا جاتا ہے۔ عاشورۂ محرم کے دن روزہ رکھنا نبی علیہ السلام کی ایک مسلسل سنتِ مبارکہ ہے یعنی یہ روزہ آپ مکہ میں بھی رکھتے تھے۔ جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو اس روزے کے رکھنے یا نہ رکھنے کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو اختیار دے دیا۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ گئے تو وہاں یہودیوں کو عاشورہ محرم کا روزہ رکھتے پایا۔ استفسار پر اُنہوں نے بتایا کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون کی قید سے نجا ت دلائی تھی۔ یہ ہمارے لیے خوشی کا دن ہے اور بطورِ شکرانہ ہم اس دن روزہ رکھتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موسیٰ علیہ السلام کے (شریکِ مسّرت ہونے میں) ہم تم سے زیادہ مستحق ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام کو بھی اس کا حکم دیا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل کتاب کی مشابہت سے بچنے کا حکم دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس محرم کے ساتھ مزید ایک روزہ رکھنے کا ارادہ ظاہر فرمایا اور مختلف روایات کو جمع کرتے ہوئے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ روزہ ۹ محرم کا ہے۔ چنانچہ اب مسلمانوں کے ہاں ۹ اور۱۰ محرم کو روزہ رکھا جاتا ہے۔.

اس کے علاوہ دس محرم کو تاریخ اسلام کا وہ بدترین واقعہ پیش آتا ہے جس میں حضرت امام حسین رض کو شہید کردیا جاتا ہے۔ یہاں پہ اہل تشیع کا مسلک الگ ہے غزاداری اور ماتم میں اسی پر بحث کرنا نہیں چاہتا۔ مگر کچھ بدعتیں اہل سنت وجماعت والوں نے بھی شروع کی ہیں۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ نو اور دس محرم کی چھٹی شہادت امام حسین کی وجہ سے شیعوں کے لیے ہے۔ حالانکہ یہ حقیقت نہیں۔ پھر سوشل میڈیا پہ یوم شہادت فاروق اعظم منانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ گذشتہ دورِ حکومت میں علماء نے کے پی کے گورنمنٹ سے یوم شہادت فاروق اعظم کے روز سرکاری چھٹی کی درخواست دی اسے منظور بھی کیا گیا۔

ابھی چترال کے کچھ لوگوں نے بھی محرم میں شادی وغیرہ سے اجتناب شروع کیا ہے۔ حالانکہ یہ بدعتیں بہت بعد کی ہیں۔ ہمارے معاشرے کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔ سنی مسلک کے علاوہ چترال کی اسماعیلی برادری بھی محرم میں خوشی یا شادی کو معیوب سمجھنے لگے ہیں۔ حالانکہ تاریخی حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ پہلے اسماعیلیوں کے ہاں بھی ان چیزوں کا اہتمام نہیں تھا۔ 1895 میں منشی عزیزالدین نے تاریخ چترال میں دعوی کیا ہے۔ کہ چترال کی اسماعیلی برادری کا تعلق شیعہ امامیہ سلسلے سے ہے مگر عجیب بات یہ ہے انھیں محرم کا پتہ نہیں۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے شہادت امام حسینؓ تاریخ کا سب سے گھناونا واقعہ تھا اس سے انکاری ممکن ہی نہیں۔ مگر یوم شہادت ہمارے اسلاف نے نہیں منایا۔

شہادت فاروق اعظم بھی ایک ایسا ہی واقعہ ہے۔ اسے بھی ہمارے اسلاف نے نہیں منایا۔ نہ ہمارے اسلاف نے بارہ ربیع الاول منایا ہے۔  کل ایک اور طبقہ اٹھے گا کہ یوم شہادت حضرت عثمانؓ کو بھی سرکاری طور پر منایا جائے۔ پھر سیدنا ابوبکرصدیقؓ اور حضرت علیؓ سب کے لیے کوئی نہ کوئی درخواست دیگا۔ پھر یوم ولادت اور یوم وفات منانے میں ہی ہم مصروف ہوجاینگے۔

یوم شہادت منانے سے کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ ان کے مشن کو آگے بڑھایا جایے۔ امام حسینؓ کا مشن کیا تھا؟ کیا ظلم کے خلاف اٹھانے کی سکت ہمارے اندر موجود ہے؟ اگر نہیں تو خالی یوِمِ حسینؓ منانے کا فائدہ کیا ؟ ہم یوم شہادت عمر فاروقؓ مناتے ہیں مگر اس کا مشن تو عدل و انصاف تھا۔ انصاف تو نام کی کوئی چیز ہی ہمارے معاشرے میں نہیں۔ پھر یوم شہادت عمر فاروقؓ منانے کا مقصد کیا ہے.؟

آخر میں اہل علم حضرات سے گزارش ہے کہ اگر شادی محرم میں ناجائز ہے تو براے مہربانی احادیث کی روشنی میں واضح کریں. اگر نہیں تو بدعات کے خلاف آواز اٹھائیے۔

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email