خود کشی کا بڑھتا ہوا رجحان

کسی شخص کا اپنے آپ کو قصداً اور غیر قدرتی طریقےسے ہلاک کرنے کا عمل خُودکُشی (Suicide) کہلاتا ہے۔ خودکشی ایک فعل بد اور حرام کام ہے ۔زیادہ تر لوگ دماغی خرابی کی وجہ سے خود کشی کرتے ہیں اور بعض لوگ کسی خاص بیماری کی وجہ سے خود کشی کرتے ہیں۔ یہ بیماری  دماغی توازن کو درہم برہم کر دیتی ہے اس طرح اپنے آپ کو ہلاک کرنے والوں کا تعلق بھی دماغ کے عدم توازن ہی سے ہوتا ہے۔ مردوں میں عمر کے ساتھ خودکشی کی شرح بڑھتی جاتی ہے لیکن عورتوں میں پچیس برس کی عمر کے بعد خود کشی کرنے کا رجحان تقریباً ختم ہو جاتا ہے۔ جاپان میں خودکشی کو ایک مقدس اور بہادرانہ فعل سمجھا جاتا ہے اور لوگ ذرا سی بات پر ہتک عزت ، کاروبار ی نقصان ، عشق میں ناکامی  پر اپنے آپ کو ہلاک کر لیتے ہیں۔ دنیا میں خودکشی کی سب سے زیادہ شرح سویڈن میں ہے۔ جبکہ اسلام اور دیگر الہامی مذاہب میں خود کشی کو حرام قرار دیا گیاہے۔ عالمی ادارۂ صحت ڈبلیو ایچ او کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر 40 سیکنڈ میں ایک انسان خودکشی کرکے اپنی جان لے لیتا ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح گذشتہ کئی سالوں میں چترال میں بھی خود کشی کی شرح بہت بڑھ گئی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ چار سالوں کے دوران چترال میں دو سو سے زائد افراد نے خودکشی کی ہے۔ ان میں زیادہ تر تعداد کم عمر لڑکیوں کی ہے۔ اس حساب سے چترال میں سالانہ پچاس افراد کی موت خودکشی سے واقع ہوتی ہے اور ہر ماہ چار افراد جبکہ ہفتے میں ایک واقعہ خودکشی کا صرف چترال میں رونما ہوتا ہے جو کہ انتہائی تشویشناک ہے۔ خودکشی کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ فعل حرام ہے۔ اِس کا مرتکب اللہ تعالیٰ کا نافرمان اور جہنمی ہے۔درحقیقت انسان کا اپنا جسم اور زندگی اس کی ذاتی ملکیت اور کسبی نہیں بلکہ ا ﷲ کی عطا کردہ آمانت ہیں۔ زندگی اللہ تعالیٰ کی ایسی عظیم نعمت ہے جو بقیہ تمام نعمتوں کے لیے اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی لیے اسلام نے جسم و جان کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے تمام افرادِ معاشرہ کو اس امر کا پابند کیا ہے کہ وہ بہرصورت زندگی کی حفاظت کریں۔ یہی وجہ ہے اسلام نے خودکشی (suicide) کو حرام قرار دیا ہے۔ اسلام کسی انسان کو خود اپنی جان تلف کرنے کی ہرگزاجازت نہیں دیتا،جس طرح کسی دوسرے شخص کو قتل کرنا پوری انسانیت کو قتل کرنے کے مترادف  ہے،ا سی طرح اپنی زندگی کو ختم کرنا یا اسے بلاوجہ تلف کرنا بھی اﷲ تعالیٰ کے ہاں ناپسندیدہ فعل ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو،اور صاحبانِ اِحسان بنو، بے شک اﷲاحسان والوں سے محبت فرماتا ہے(البقرة) ایک اور مقام پر اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو، بے شک اﷲ تم پر مہربان ہےاور جو کوئی تعدِّی اور ظلم سے ایسا کرے گا تو ہم عنقریب اسے (دوزخ کی) آگ میں ڈال دیں گے، اور یہ اﷲ پر بالکل آسان ہے (النساء) احادیث مبارکہ میں بھی خود کشی کی سخت ممانعت وارد ہوئی ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کشی کرنے والے کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ "جس شخص نے خود کو پہاڑ سے گرا کر ہلاک کیا تو وہ دوزخ میں جائے گا، ہمیشہ اس میں گرتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گااور جس شخص نے زہر کھا کر اپنے آپ کو ختم کیا تو وہ زہر دوزخ میں بھی اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ دوزخ میں کھاتا ہوگا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گااور جس شخص نے اپنے آپ کو لوہے کے ہتھیار سے قتل کیا تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ دوزخ کی آگ میں ہمیشہ اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔” حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جو شخص اپنی جان کو کوئی چیز چبا کر ختم کر لیتا ہے تو وہ دوزخ میں بھی (ہمیشہ) اسی طرح خود کو ختم کرتا رہے گا، اس طرح جو شخص اپنی جان کو گڑھے وغیرہ میں پھینک کر ختم کرتا ہے تو وہ دوزخ میں بھی ایسے ہی کرتا رہے گا، اور جو شخص اپنی جان کو پھانسی کے ذریعے ختم کرتا ہے تو وہ دوزخ میں بھی ایسے ہی کرتا رہے گا۔مندرجہ بالا آیات اور احادیث سے خود سوزی اور اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کے خاتمے کی سنگینی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ، اس مذموم اور حرام فعل کا جڑ سے خاتمہ ہونا چاہیے۔اس کی ذمہ داری  ہم سب پہ عائد ہوتی ہے،کیونکہ ہمارے معاشرے اور خصوصاً چترال میں خود سوزی کرنے والوں کا نصف سے زائد حصہ نوجوان اور کم عمر لڑکیوں پر مشتمل ہے، لہذا اس کی روک تھام کے لیے کوشش بحیثیت باپ، بھائی، استاد، عالم، شاعر، ادیب، قلم کار، سماجی کارکن یا ہر حیثیت سے ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے۔خصوصا علماء کرام کو اس سلسلے میں اہم رول ادا کرنے کی ضرورت ہے، خودکشی جیسے حرام موت سے متعلق قرآن ،حدیث کی روشنی میں لوگوں کو خبردار کرنا چاہیے اور اس کی سخت وعیدسے لوگوں کو آگاہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اور سکول و کالج کے اساتذہ بھی اس سلسلے میں اہم کردارادا کرسکتے ہیں، چترال میں اکثر لڑکیوں کی خودکشی کی وجہ امتحان میں ناکامی بھی ہے، چونکہ ہمارے معاشرے میں تعلیم کی اہمیت بھی اچھی خاصی ہے، بس تھوڑی سی تحریک کی ضرورت ہے، اگر معاشرے کا ہر فرد خود کو ایک ذمہ دار شہری تصور کرکے اس کے خلاف تحریک شروع کرے تو کوئی بعید نہیں کہ اس کا خاتمہ ہوسکے کیونکہ یہ ایک خودساختہ عمل ہے کوئی طبعی موت نہیں، اور مسئلہ ہر گھر کا ہے کسی ایک کا نہیں۔

Print Friendly, PDF & Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے