ووٹ اور نوٹ

مرشد آج آیا تو اس کے ہاتھ میں پوسٹر تھا۔یہ ایک آزاد امیدوار کا اشتہار تھا۔ امید وار کہتاہے کہ سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ عوام کو دھوکہ دیا اس لیے میں آزاد حیثیت سے صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑتا ہوں۔پوسٹر پر جو تصویر ہے وہ ہوبہو سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی تصویر سے ملتی جلتی ہے ۔آزاد امیدوار ریٹائرڈ صوبیدار ہیں اس طرح سابق آرمی چیف سے دور کا رشتہ بنتاہے۔ میں نے مرشد سے کہا ایسے اشتہارات اور پوسٹر لے کر نہ پھیرا کرو۔مرشد نے میری بات کا برامنایا اور دو ٹوک الفاظ میں جواب دیا” میں اس کا ووٹر ہوں ” میں نے کہا کہ2023ء میں تم 18سال کے ہوجاؤ گے، تمھارا نام ووٹرلسٹ میں آئے گا، تب تک تم ووٹر نہیں بن سکتے ۔ مرشد نے کہا میرے ما ں باپ ہیں ،میرے بھائی ہیں، میری بہنیں ہیں،میرے دوست ہیں سب اس امید وار کو ووٹ دیں گے۔ میں نے کہا اس امیدوار کی خوبی کیا ہے ؟ مرشد نے کہا کہ سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس امیدوار کے پاس پارٹی کا جھنڈا نہیں ہے۔ میں نے کہا جھنڈا بہت فائدہ دیتاہے۔ہمارے دیہاتوں میں ہر گھر کے اندر 2013 ء کے جھنڈوں کے دسترخواں بنا یا گیا ہے۔گز والا جھنڈا چھوٹا دستر خواں بنتا ہے،دو گز اور تین گز والا جھنڈا بڑا دسترخواں بنتا ہے، تکیہ، رضائی وغیرہ کا غلاف بھی بنتا ہے۔مرشد نے کہا جھنڈا بھی بڑی کام کی چیز ہے مگر ہم سیاسی پارٹیوں سے تنگ آگئے ہیں۔ میں نے مرشد سے کہا کہ دیکھو آزاد امیدوارالیکشن کا خرچہ کہا ں سے لائے گا؟ ایک زمانہ تھا چترال کے مشہور وکیل اور قانون دان محمد اجمل خان ایڈوکیٹ نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔دوستوں کے پاس جاتے تو ووٹ کے ساتھ چندہ بھی مانگتے تھے۔ ہمارے بزرگ دوست حاجی عبدالمعز خان نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا یہ واحد امیدوار ہے جو وو ٹ بھی مانگتا اور نوٹ بھی مانگتاہے۔ مرشد نے یہ بات سن کر قہقہ لگایا اور بولاسیدھی سی بات ہے جو ووٹ دے گاوہ نوٹ نہیں دے گا۔جو نوٹ دے گا وہ ووٹ نہیں دے گا۔میں نے کہا یہ تو گھاٹے کا سودا ہوا۔ امیدوار کو نوٹ سے ذیادہ ووٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں نے مرشد کے ہاتھ سے پوسٹر لے لیا ۔امیدوار کا نام امیراللہ تھا۔ پوسٹر کی رو سے وہ جیتنے کی امید رکھتا ہے، خدمت کا جذبہ رکھتا ہے۔ اس کا نعرہ ہے آزمائے ہوئے لوگوں کو دوبارہ نہ آزماؤ، نیا نمائندہ سامنے لاؤ ۔ مرشد نے دوسری جیب سے موبائل نکالا، فیس بک کھولا، ایک سینئر ڈاکٹر کی تصویر مجھے دکھائی اور بولا اس کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ میں نے کہا ڈاکٹر یوسف ہارون قومی اسمبلی کا امید وار ہے۔آزاد حیثیت سے الیکشن لڑرہیں ہے ۔ مرشد پوچھتا ہے اس کو ووٹ دو گے؟ میں نے کہا میرا منشور ہی آزاد امیدوار ہے ۔ میں پارٹی کی طرف سے نامزد امیدوار کی جگہ آزاد امیدوار کو ہر حال میں ووٹ دوں گا ۔ ووٹ جیتنے کے بعد جس پارٹی کی حکومت آئے گی اس کے ساتھ جا ملے گا اور ہمارے مسائل حل کرے گا ۔ مرشد خوش ہوکر مسکراتا ہے اور کہتا ہے کہ سچ مچ ایسا ہی ہوگا ۔میں کہتا ہوں ایسا ہی ہوگا ۔مرشد خوش ہوتا ہے ۔میں اس کو بتاتا ہوں ذیادہ جذباتی نہ ہو آگے بہت کام پڑا ہے۔علامہ اقبال نے ویسے نہیں کہا ؂

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں

Print Friendly, PDF & Email