کارٹون بھی سنجیدہ ہوتا ہے

مرشد چند دنوں سے غائب تھا ۔ میں نے پوچھا کدھرگئے تھے؟ مرشد بولا میں اپنے دوستوں کے ساتھ ریشن بجلی گھر دیکھنے گیا تھا ۔میں نے کہا وہ تو 20جولائی 2015ء کو سیلاب میں بہہ گیا تھا۔ مرشد بولا یہی تو دیکھنے والی چیز ہے۔ مشینری وہاں کیچڑ میں ڈھائی سال پہلے جس طرح پڑی تھی آ ج بھی اسی طرح پڑی ہے۔میں نے پوچھا تمہیں ریشن بجلی گھر سے کیا دلچسپی ہے؟ اب تو گولین گول ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی بجلی آگئی ہے اس کا قصہ تمام ہوا۔مرشد روٹھ گیا اس نے تیوریاں چڑھائیں اور اٹھ کر جانے لگا۔میں نے اسے روکا اور ایک کارٹون دکھایا ۔مرشد نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ یہ بچوں کی چیز ہے بچے کارٹون دیکھتے ہیں۔میں نے کہا ادھر آؤ ، بیٹھو۔کارٹون بھی سنجیدہ ہوتا ہے۔کبھی کبھار بے حد سنجیدہ ہوتا ہے۔مرشدبیٹھ گیا۔ میں نے کہا پہلے پہلے اپنا موڈ درست کرو ،ذرا مسکراؤ ٹینشن نہ لو، میری طرف دیکھو یہ کارٹون تمھاری دلچسپی کا ہے۔ بہت سنجیدہ کارٹون ہے اور ریشن ہی کا ہے۔اس کا موضوع بجلی گھر کے کھنڈرات ہیں۔مرشد خوش ہوا پھر اس نے جیب سے ڈائری نکالی،ڈائری کھول کر ایک صفحہ مجھے دکھایا۔اس نے ریشن کے بزرگوں سے بجلی گھر کی تاریخ معلوم کر کے لکھ لیا تھا ۔یہ 1981ء کی کوئی تاریخ تھی ۔ مارشل لاء تھا ،کوڑے مارے جا رہے تھے، مرزا محمد اقبال خان اور مولانا عبدالطیف نے تحریک شروع کی۔ انہوں نے جلسے جلوسوں کے ذریعے مطالبہ کیا کہ اگر حکومت نے چرس کی کاشت ختم کرنے کامعاوضہ نہ دیا تو ہم دوبار ہ چرس کی کاشت شروع کریں گے، فوجی حکومت نے مظاہرین سے مذاکرات کیے،ہر یونین کونسل میں ایک ٹریکٹر اور بجلی کا جنریٹر دیا۔ مرکزی مقام ریشن میں 4 میگا واٹ بجلی گھر کی منظوری دی ، جرمن انجینئرکو بلایا اس نے نہ صرف بجلی گھر کا ڈیزائن تیار کیا بلکہ ریشن میں چند سال قیام کر کے اس کی تعمیر میں بھی حصہ لیا ۔ بہت بڑا سرنگ بنا یا گیا۔یہ پہلا سرنگ تھا اس لیے دور دور سے لوگ سرنگ دیکھنے آتے تھے۔ پھر آٹو میٹک کمپیوٹرائزڈ مشینری لائی گئی۔ مشینری کی تنصیب اور ٹرانسمیشن لائن بچھانے میں تاخیر ہوئی تو بونی کے سیاسی و سماجی کارکن سید سردار حسین اور مقامی عمائدین کو لیکر ریشن میں بھوک ہڑتالی کیمپ لگایا اور دھرنا دیا ۔ 1990ء کے عشرے میں بجلی گھر بن گیا۔سردار حسین ڈسٹرکٹ کونسل کے ممبر اور پھر ایم پی اے منتخب ہوئے ۔ مرزا محمد اقبال وفات پا گئے ،بجلی آگئی ، کاری سے مستوج اور تورکھو موڑکھو تک80 ہزار صارفین کو بجلی دے دی گئی ۔ اس وقت ہمارے صوبے کا نام صوبہ سرحد تھا۔ بجلی گھر بنانے والے محکمے کا نام سرحد ہا ئیڈرل ڈیولپمنٹ آرگنائیزیشن (SHYDO)تھا ۔پھر صوبے کا نام بدل دیا گیا۔SHYDO کا نام (PEDO)رکھ دیا گیا ۔میں نے مرشد کو روکا اور پوچھا تم آج کی بات کیوں نہیں کرتے؟ مرشد نے کہا یہ آج کی بات ہے۔آج وہاں کھنڈرات نظر آتے ہیں ۔چنڈول کا گھونسلا "اشیپا قیٹی ماڑی”کا منظر ہے۔ میں نے کہایہی بات تو کارٹون میں دکھائی گئی ہے۔ریشن کے عمائدین ،سفید ریش بزرگ اور نوجوانوں کا ایک جمگھٹا ہے۔ یہ لوگ ایک بڑی قبر پر فاتحہ پڑھ رہے ہیں ۔قبر کے اوپر کتبہ لگا ہوا ہے۔اس پر لکھا ہے۔”پیڈو تاریخ وفات 20جولائی2015ء ۔” مرشد کارٹون کو دیکھ کر جھوم اٹھتا ہے۔مجھ سے پوچھتا ہے اگر پیڈو نہ مرتا تو کیا کرتا؟میں جواب دیتا ہوں6مہینے کے اندر نئی مشینری لا کر بجلی گھر کو دوبارہ چلاتا۔بجلی پیدا کرکے تاریکیوں کو ختم کرتا۔80 ہزار صارفین کو بجلی دیتا ۔ مرشد حیران ہوتا ہے اور پوچھتا ہے قصور کس کا ہے؟ میرے پاس اس سوال کا جواب نہیں۔عوام نے دھرنا نہیں دیا ،سید سردار حسین نے بھوک ہڑتال نہیں کی۔وزیر اعلیٰ کو کسی نے بجلی گھر کے کھنڈرات کی تصویرنہیں بھیجی۔عمران خان کے علم میں یہ بات نہیں آئی۔اس لیے 2ارب روپے کی خطیر رقم سے بنا ہوا 4MWبجلی گھر کھنڈرات میں تبدیل ہوا اس پر مرشد کی رگِ ظرافت پھڑک اٹھی فوراًبولا!”ہم تبدیلی کا نعرہ لیکر آئے تھے”۔

Print Friendly, PDF & Email