مرشد کا چترال

مرشد کی عمر سولہ سال ہے وہ اپنے وقت سے بہت آگے سوچتا ہے اور اپنی عمر سے بڑھ کر باتیں کرتا ہے وہ اردو اور انگریزی فر فر بولتا ہے۔اپنے عزیزو اقارب، اساتذہ اور بزرگوں کے علاوہ مہمانوں کے سامنے بھی بلا جھجک اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے وہ چترال کے بارے میں ایک وژن رکھتا ہے، ایک سوچ اور ایک فکر رکھتا ہے۔ انوازی ان کے خیالات کی لہر ہے۔ یہ وہ بادِ نسیم ہے جو مرشد کے وژن کو بانٹنے کے ساتھ ساتھ آپ کو بھی غور فکر کی دعوت دیتی ہے۔
فیض نے کیا خوب کہا ہے۔

ہم اہلِ قفس تنہا بھی نہیں، ہر روز نسیمِ صبحِ وطن
یادوں سے معطر آتی ہے اشکوں سے منور جاتی ہے

مرشد ہر روز انٹر نیٹ سے ڈھیر ساری معلومات کا خزانہ اُٹھاتا ہے اور چترال کو اس ترازو میں تولتا ہے۔آج شام اس نے نیٹ پر ضلع دیر کے پروفائل کو دیکھا اور چترال کی سڑکوں کا دیر کے ساتھ موازنہ کیا۔مرشد نے نوٹ بک میں لکھا کہ دیر کے دو اضلاع ، اپر اور لوئر کا کل رقبہ 8000 مربع کلو میٹر ہے۔چترال کے دو اضلاع کا کل رقبہ14850 مربع کلو میٹر ہے یعنی چترال کے دو اضلاع رقبے کے لحاظ سے دیر کے دو اضلاع سے بہت بڑے ہیں، دُگنے کے قریب ہیں۔ دیر کے دو اضلاع میں پختہ سڑکوں کی لمبائی 8400 کلومیٹر ہے اس کے مقابلے میں چترال کے دو اضلاع میں پختہ سڑکوں کی کل لمبائی 184 کلو میٹر ہے یعنی دیر کے ہزار کلو میٹر کے مقابلے میں ہمارے ہاں سو کلو میٹر سڑک بھی نہیں۔ 50 کلومیٹر بھی نہیں۔ مرشد اس پر بس نہیں کرتا وہ سوال کرتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ پھر اپنے سوال کی تشریح کرکے اسے مزید مشکل، گھمبیر، گنجلگ، بنا دیتا ہے وہ اس آسان سوال کو چار ذیلی حصوں میں تقسیم کرتا ہے وہ پوچھتا ہے کیا ہمارے منتخب نمائندے کمزور، نالائق اور نااہل تھے؟کیا ہمیں نسلی اقلیت ہونے کی وجہ سے اکثریتی آبادی نے ترقی سے محروم رکھا؟ کیا چترال میں کرپشن کی شرح دیر سے زیادہ تھی ؟ کیا چترال کے عوام میں اپنے حقوق کا شعور دیر کے لوگوں کی نسبت بہت کم اور نہ ہونے کے برابر تھی؟ دوسرے لوگوں نے کیا کیا جوابات دیئے وہ نہیں بتاتا۔ میرے جواب کو اس نے نہ صرف پسند کیا بلکہ جھوم اٹھا اور ونڈرفل کہا۔ میرا جواب تھا۔ تم اپنے سوالات سے "تھا”تھے”تھی” کی جگہ "ہیں”اور "ہے” ڈال دو، وہ خوش ہوکر کہتا ہے آپ کے خیال میں چترال کے منتخب نمائندے نالائق،کمزور اور نااہل ہیں۔ چترال کے لوگوں کو صوبے کی نسلی اکثریت اچھوت کا درجہ دے کر حقوق سے محروم رکھتی ہے۔ چترال میں کرپشن کی شرح دیرکی نسبت 100 گنا زیادہ ہے اور چترال کے عوام میں اپنے حقوق حاصل کرنے کا شعور بالکل نہیں ہے۔ماضی کو حال میں بدلنے کے بعد مرشد خاموش نہیں ہوتا بلکہ سوال پوچھتا ہے کہ کیا ہم ماضی کو بھول جائیں ؟ میں اس کو سمجھانے کے لیے ایک کاغذ ہاتھ میں لیتا ہوں اور اس کاغذ پر چار سنوں کے ساتھ تاریخیں لکھتا ہوں۔14اگست 1947 کو بھی آج کی حالت تھی۔21 مارچ 1953 کو بھی یہی حالت تھی۔20مئی 1969 کو بھی یہی حالت تھی۔ 5 جولائی1977 کو بھی ایسی ہی کیفیت تھی۔تاریخ کے کسی بھی موڑ پر ہمارے نمائندے لائق نہیں تھے، صوبے کی اکثریت چترال کو حق دینے پر آمادہ نہیں۔ یہاں کرپشن دیر کے مقابلے میں زیادہ تھی اور چترال کے عوام میں اپنے حقوق حاصل کرنے کا شعور نہیں تھا۔کسی بھی تاریخ کو یہ سوالات پوچھے جاتے تو یہی جوابات دیئے جاتے۔آپ 1979لے لیں ،1985 لے لیں ،1998 لے لیں،2013 لے لیں یا 2017 کا سال لے لیں۔بات ایک ہی ہے۔ مرشد سوچتا ہے اور کہتا ہے۔ آج مجھے نیند نہیں آئے گی۔ میں کہتا ہوں یہ بات شہزادہ عزیز الرحمٰن بیغش نے غزل کے ایک شعر میں کہی ہے۔

زہرساریران عزیز آب و دانہ زندگیو
انوازو گان نودیا ، شلاگو مہ شینی گویان

مرشد کہتا ہے اس شعر نے مجھے مزید غمگین کردیا۔ کوئی اور شعر نہیں ہے۔ میں اس کو اسی غزل کا دوسرا شعر سناتا ہوں۔

بازوری زاہ موبانی کوئے زاہ موبائے تہ اوان
مہ غیچی اشرو گیکو دوست گانی اوسینی گویان
پھر اس غزل کا مطلع سنا کر بات ختم کرتا ہوں۔
گمبوریان ادب کورورمہ رفیق کرزینی گویان
بلبلے شرین چوڑے کی دوست مہ اندرینی گویان

Print Friendly, PDF & Email