مشیرِ خاص

مرشد آیاتو بہت خوش تھا۔ اُس نے جیب سے لفافہ نکال کر میرے سامنے رکھا۔ لفافے میں خط تھا۔ خط میں لکھا تھا۔ بڑے صاحب نے آپ کو اپنا مشیر خاص مقرر کیا ہے۔ خط پڑھ کر میں نے پوچھا تمہارا تجربہ کیا ہے؟ اور اس خاص مشیر کے فرائض کیا ہیں؟اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ مرشد بولا میں ابھی پڑھتا ہوں ۔ سکول میں ہوں پھر کالج جاؤں گا، پھر یونیورسٹی جاؤں گا۔ آہستہ آہستہ مجھے فرائض اور ذمہ داریوں کا بھی پتہ لگ جائے گا۔ نیز تجربہ بھی ساتھ ساتھ ہوتا رہے گا۔ میں نے پوچھا کیا تم نے اس پوسٹ کیلئے درخواست دی تھی؟ مرشد نے کہا ’’ باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا کہ بڑے صاحب کے پاس مشیر خاص کا عہدہ خالی ہے تو میں نے درخواست دی تھی۔ کیا تم نے درخواست میں اپنی عمر لکھی تھی؟ مرشد نے کہاعمر لکھی تھی ویسے بڑے صاحب مجھے جانتے بھی ہیں۔ وہ تمہیں کیسے جانتے ہیں؟ مرشد نے کہا میری نانی کی نند بڑے صاحب کے گھر میں کام کرتی ہیں۔ اُن کا باورچی بھی میرا واقف ہے اور ڈرائیور میرے چچا زادبھائی کا منجھلا سالا ہے۔ میں نے مرشد کو شاباش دی اور ساتھ پیشگوئی بھی کی کہ اس طرح اعلیٰ سطح پر تمہارے تعلقات ہوں گے تو ایک دن بڑا عہدہ حاصل کروگے۔ مرشد نے کہا آپ نے مجھے مبارکباد نہیں دی۔ میں نے کہا ابھی وقت نہیں آیا۔ جب تم لوگ مل کر بڑے صاحب کا بیڑہ غرق کروگے تو مبارکباد دینے آؤں گا۔ مرشد نے کہا آپ نے خراساں کے بادشاہ کا قصہ پڑھا ہوگا اس لیے بدشگونی کی فال نکالتے ہو۔ میں نے کہا وہ قصہ تم نے کہاں پڑھا؟ مرشد بولا آپ نے قدیم حکایتوں کی موٹی کتاب مجھے دی تھی اس میں یہ قصہ بھی تھا۔ میں نے کہا وہ موٹی کتاب اپنے موٹے عقل والے بڑے صاحب کو بھی دے دو تاکہ سندرہے او ر بوقت ضرورت کام آئے ۔ میں نے مرشد سے کہا خراساں کے بادشاہ کا قصہ مجھے یا د نہیں رہا۔ ذرا سناؤ کہ قصہ کیا ہے؟ مرشد نے قصہ سنانا شروع کیا۔ خراساں کے بادشاہ کا دربار لگا ہواتھا ایک مہمان کے آنے کی اطلاع دی گئی پھر مہمان کو دربار میں بُلایا گیا۔ مہمان نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا’’ میں توران کے بادشاہ کا سیاسی مشیر ہوں ‘‘ چند دنوں کے بعد بادشاہ نے درباریوں سے پوچھا کیا وجہ ہے کہ ہمارا کوئی سیاسی مشیر نہیں ؟ ایک درباری نے جان کی امان پاتے ہوئے عرض کیا عالیجاہ ! آپ نے کبھی اس کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ بادشاہ نے کہاما بدولت کو اس کی ضرورت شدت کے ساتھ محسوس ہورہی ہے ۔  درباری کے داماد کا بہنوئی بے روزگار تھا۔ اُس نے سوچا یہ موقع ہے۔ اس کو نوکری ملے گی اور بادشاہ کو سیاسی مشیر مل جائیگا۔ پھر اُس نے سوچا میرے داماد کا بہنوئی بادشاہ کی فوج میں حوالدار تھا ۔ سیاسی مشیرکیوں کر بنے گا؟ پھر اس کو خیال آیا

’’ شاہاں چہ عجب گربنوازند گدارا‘‘

چنانچہ اپنا رشتہ ظاہر کیے بغیر اُ س نے سابق حوالدار کو سیاسی مشیر بنانے کی تجویز دی۔ بادشاہ کو تجویز پسند آئی۔ کچھ اُ س درباری نے مکھن لگا کر مزید اشتیاق دلایا۔ بادشاہ نے حامی بھری۔ اگلے دن سابق حوالدار کو دربار میں بلا کر سیاسی مشیر کاعہدہ دے دیا گیا۔ عہدہ حاصل کرنے کے بعد حوالدار نے اپنے دوست کسان کو بُلایا اور کہا میری مدد کرو۔ آج سے میں بادشاہ کا سیاسی مشیر ہوں تم میرے سیاسی مشیر ہو، کسان نے کہافکر مت کرو بادشاہ سے کہو ایک دعوت کااہتمام کرے ۔ بادشاہ نے دعوت کا اہتمام کیا۔ کسان نے یہ ماجرا موچی کو سنایا۔ موچی نے کہا مجھے اپنا سیاسی مشیر بناؤ، کسان نے موچی کو اپنا سیاسی مشیر بنایا۔ موچی نے یہ واقعہ میراثی کو سنایا تو میراثی نے کہا تم مجھے اپنا سیاسی مشیر بناؤ، موچی نے میراثی کو سیاسی مشیرکا عہدہ دیدیا۔ اس طرح سیاسی مشیروں کی پوری’’ بیوروکریسی‘‘ بن گئی ۔ اس کواسٹبلشمنٹ کا نام دیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد پڑوسی ملک کے بادشاہ نے خراساں پر قبضہ کیا۔ بادشاہ کو قید کرلیا۔ قید میں بادشاہ نے اپنے بیٹے کو سبق آموز خط لکھا۔خط میں اُس نے بیان کیا کہ پڑوسی ملک کے بادشاہ نے اپناسیاسی مشیر ما بدولت کے دربار میں ایک سازش کے تحت بھیجا تھا۔ اس کی دیکھا دیکھی ما بدولت نے سیاسی مشیر رکھ لیااور نتیجہ یہ ہوا کہ ملک بھی ہاتھ سے گیا۔ بادشاہت بھی ہاتھ سے گئی۔ میں نے  مرشد کی بات کاٹتے ہوئے اپنا فیصلہ سُنا دیا۔ دیکھو مرشد بادشاہ نے تم جیسے ناتجربہ کار حوالدار کو مشیر خاص رکھا ۔  اُ س نے کسان ،موچی اور میراثی پر مشتمل بیوروکریسی بنائی۔ پس منظر میں نانی کی نند ، چچا زادبھائی کی سالی اور درباری کے داماد جیسے کردار تھے۔خانساموں اور ڈرائیوروں کا عمل دخل تھا۔ خراساں میں فارسی بولی جاتی تھی۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؂
گرگ میرو سگ وزیر و موش را درباں کنند
ایں چُنیں ارکانِ دولت ملک راویراں   کنند

Print Friendly, PDF & Email