نظم و نسق کا ماتم

مُرشد کےکمرے میں نایاب اور نادر تصویریں محفوظ ہیں۔ مگر وہ یہ تصویریں کسی کو نہیں دیتا ، بعض تصویریں نمائش میں رکھنے کے قابل ہیں مثلا ایک تصویر میں پوسٹر دیکھائے گئے ہیں۔ تین رنگو ں کا پوسٹر ہے جلی حروف میں لکھا ہے "تعلیم ہماری پہلی ترجیح ہے” ۔ اس کے برابر میں دوسرا پوسٹر ہے جس میں چترال کے 52 مکتب سکولوں کو بند کرنے کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا گیا ہے۔ آج مُرشد کا احمقانہ سوال یا silly question  یہی ہے۔ مُرشد پوچھتا ہے اگر تعلیم تمھاری پہلی ترجیح ہے تو مکتب سکولوں کو بند کرکے 5 سال عمر کے بچوں اور بچیوں کو 2 کلومیڑ دور بڑے سکول جانے یا سکول چھوڑ کر گھر بیٹھنے کا مشورہ کیوں دیا جاتا ہے؟ میں مُرشد کو بتایا کہ سیاسی پارٹی کامنشور ہاتھی کے دانت کی طرح ہوتا ہے، کھانے کے اور دکھانے کے اور۔ تم منشور اور تقریر کو دیکھو صرف کام کو دیکھو۔ مُرشد پوچھتا ہے میرے گاؤں کا ہسپتال ہے اس میں 6 سال پہلے ڈاکٹر تھا ۔ 6 سالوں میں کوئی ڈاکٹر نہیں آیا۔ ایکسرے کا انتظام نہیں ، لیبارٹری نہیں، دوائی نہیں۔ میرا باپ پارٹی ورکر ہے اس نے 4 ماہ کی محنت کے بعد انصاف صحت کارڈ لے لیا ہے ۔ اب وہ علاج کہاں سے کرائے گا۔ میں کہا آغا خان ہسپتال کراچی سے علاج کرائے گا۔ مرشد کہتا ہے مذاق مت کرو۔ میں جواب دیتا ہوں۔ تمھیں اٹکھیلیاں سوجھی ہیں۔ ہم بیزار بیٹھے ہیں۔ مرشد پوچھتا ہے میرے باپ کے پاس 2 ہزار روپے نہیں وہ کراچی جانے کے لیے 50 ہزار روپے کہاں سے لائے گا؟ میں مرشد کو بتاتا ہوں کہ سرکار کا یہی حکم ہے۔ مُرشد پھر پوچھتا ہے  کہ حکومت کو عوام کی مشکلات اور عوامی مسائل کا علم کیوں نہیں؟ میں مرشد کو بتاتا ہوں کہ عوام کے ساتھ رابطہ کرنے کا کوئی ذریعہ حکومت کے پاس نہیں۔ ایم این اے، ایم پی اے، ضلع ناظم ، تحصیل ناظم اور پارٹی کے عہدیداروں کو حکمران سے ملنے اور بات کرنے کی اجازت نہیں ۔ اخبارات میں شائع ہونے والی شکایات کو حکمرانوں تک پہنچانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اگر کسی افیسر نے اخباری تراشہ بھیجا یا کسی عوامی شکایت کی طرف توجہ دلائی تو اس کے خلاف کاروائی کرکے اس کو عہدے سے ہٹایا جاتا ہے۔ اس لیے حکومت اندھی اور بہری ہو چکی ہے۔ لولی اور لنگڑی بن چکی ہے ۔ مرشد پوچھتا ہے ۔ پھر حکمرانوں کے ٹوئٹر اکاؤنٹ اور سٹیزن پورٹل کا نام کس لیا جاتا ہے؟ یہ کس مرض کی دوائیں ہیں؟ میں مرشد کو پاس بٹھا کر نظم و نسق کا ماتم کرتا ہوں۔ اس کو سمجھاتا ہوں اور اس کی غلطی فہمی دور کردیتا ہوں۔ میں مرشد کو بتاتا ہوں کہ چترال کے ساڑھے چار لاکھ کی آبادی میں ٹوئٹر اور سیٹز ن پورٹل صرف 200 بندوں کو دستیاب ہیں۔ جو لوگ ان ذرائع کو استعمال کرتے ہیں ۔ وہ کینیڈا، برطانیہ، فرانس، امریکہ اور دبئی میں رہتے ہونگے۔ یہ ہوائی قلعے اور شیخ چلی کے خوابوں کی طرح ہیں ۔ عوام کے ساتھ حکمرانوں کا کوئی رابطہ نہیں ہے۔ رابطے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ درخواست، شکایت، اور عرضی حکمرانوں تک پہنچانے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ مرشد نے آنکھیں ملتے ہوئے میری طرف دیکھا۔ میں نے کہا ابھی تمھاری آنکھیں نہیں کھلی ہیں، آنکھیں کھولو گے تو تمہیں پتہ لگ جائے گا۔ غالب نے کہا تھا

ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گرکھلا

Zeal Policy

Print Friendly, PDF & Email